
’پاکستان سپر لیگ کے مستقبل کے شیڈولز میں ’شدید گرمی‘ کو مدنظر رکھنا ہوگا‘
برٹش ایسوسی ایشن فار سسٹین ایبلٹی اِن اسپورٹ اور دیگر اداروں نے اہم رپورٹ مرتب کی ہے۔
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) نے کئی رکاوٹوں کو عبور کرکے ملک کی سب سے منافع بخش کرکٹ پروڈکٹ کا مقام حاصل کیا ہے، لیکن یہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچ نہیں سکے گا۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر پی ایس ایل کو اسی وقت میں منعقد کیا گیا، جیسے گزشتہ ایڈیشن میں ہوا، تو بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت مستقبل کے ٹورنامنٹس کو متاثر کریں گے۔
’ہِٹ فار سِکس: دی ڈینجر زون‘ کے عنوان سے جاری کی گئی رپورٹ، جو کہ برٹش ایسوسی ایشن فار سسٹین ایبلٹی اِن اسپورٹ (بی اے ایس آئی ایس) اور دیگر اداروں کی جانب سے مرتب کی گئی ہے، اس رپورٹ کے مطابق پی ایس ایل کے گزشتہ ایڈیشن کے 34 میں سے 17 میچز ایسے حالات میں کھیلے گئے جو کم از کم تھکن یا جسمانی کمزوری کا باعث بن سکتے ہیں۔
پی ایس ایل کے پہلے 9 ایڈیشنز فروری اور مارچ کے درمیان منعقد کیے گئے تھے، لیکن اس سال پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کے باعث پی ایس ایل کو گرمیوں کے مہینوں (اپریل اور مئی) میں منتقل کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے ساتھ ٹکرا گیا تھا۔
مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی مختصر کشیدگی کے باعث پی ایس ایل کو عارضی طور پر روک دیا گیا، جس کے بعد یہ مزید گرمیوں میں چلا گیا۔
ٹورنامنٹ کا اختتام 18 مئی کو ہونا تھا، لیکن یہ ایک ہفتے بعد یعنی 25 مئی کو مکمل ہوا، اور اگلے سال کا ایڈیشن بھی انہی مہینوں میں ہونے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2025 کے پی ایس ایل کے 34 میچوں میں سے نصف وہ میچز تھے جو یا تو ’کاشن‘ یا ’ایکسٹریم کاشن‘ کے زمرے میں آتے ہیں، یہ درجہ حرارت اور نمی کو مدنظر رکھتے ہوئے گرمی کے خطرے کا اندازہ لگانے کا ایک پیمانہ ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، 15 دن ’کاشن‘ کی حالت میں تھے اور 2 دن ’ایکسٹریم کاشن‘ میں شامل تھے، جن میں لاہور قلندرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان پلے آف میچ بھی شامل تھا۔
ہیٹ انڈیکس کے مطابق، ’کاشن‘ والے حالات میں لمبے وقت تک دھوپ میں رہنے سے تھکن ہو سکتی ہے، جب کہ ’ایکسٹریم کاشن‘ کے تحت سن اسٹروک، پٹھوں میں کھچاؤ یا ہیٹ ایکزاسشن جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ 27 ویں میچ (17 مئی) سے لے کر تمام باقی میچز (جن میں پلے آف بھی شامل ہیں) ان حالات میں کھیلے گئے جو ہیٹ انڈیکس کے ’کاشن‘ یا ’ایکسٹریم کاشن‘ کے معیار پر پورے اترتے تھے۔
مارچ کا مہینہ اب کوئی متبادل نہیں
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی موسم کے باعث مارچ کے مہینے میں واپسی کوئی حل نہیں ہوگا۔
اگرچہ پی ایس ایل کے میچز نے ’ڈینجر‘ زمرے میں آنے والے حالات سے بچاؤ کیا، لیکن رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، ایسے شدید موسم جیسے 2022 کا مارچ ہیٹ ویو (جو اب 30 گنا زیادہ ممکن ہے) مستقبل میں معمول بنتے جا رہے ہیں۔
اگرچہ کرکٹ کوئی بہت زیادہ جسمانی مشقت والا کھیل نہیں، مگر یہ دورانیے میں طویل ہے، جہاں 50 اوورز کے میچز 8 گھنٹے تک جاری رہ سکتے ہیں، گرمی اور دھوپ میں طویل ایکسپوژر خطرناک بن سکتا ہے۔
ٹی ٹوئنٹی اگرچہ مختصر فارمیٹ ہے، مگر اس رپورٹ کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے بھی موسم کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے کھیلنا پڑے گا۔
ڈاکٹر کرسٹینا ڈال، جو کہ کلائمیٹ سینٹرل کی نائب صدر اور اس تحقیق میں شامل ایک ادارے کی نمائندہ ہیں، انہوں نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ جیسے جیسے ہماری زندگی اور برادریوں کے کئی پہلو ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہوں گے، کرکٹ جیسا کھیل بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتہائی گرم اور مرطوب حالات میں میچز کرانا کھلاڑیوں اور شائقین دونوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، لہٰذا کھیلوں کو ایسے وقت یا دنوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے جب موسم نسبتاً ٹھنڈا ہو، یا پھر کھیلوں کو ایئر کنڈیشنڈ انڈور اسٹیڈیمز میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے، عموماً گرم علاقوں میں واقع ہیں، لہٰذا پی ایس ایل واحد لیگ نہیں جو ان چیلنجز کا سامنا کرے گی۔
دیگر مسائل اور کاربن اثرات
دنیا بھر میں پھیلتی ہوئی ٹی ٹوئنٹی لیگز (جو کرکٹ بورڈز کے مالی ستون بن چکی ہیں) ایک توازن کا تقاضا کرتی ہیں، ان لیگز کی کاربن فٹ پرنٹس (جیسے کھلاڑیوں کے سفر، اسٹیڈیم آپریشنز اور دیگر سرگرمیاں) ابھی تک واضح نہیں۔
ڈاکٹر ڈال کا کہنا تھا کہ کاربن آلودگی، چاہے کوئی بھی کرے، ماحولیاتی اثرات ایک جیسے ہوتے ہیں، اس لیے جتنا ہم ذاتی، ادارہ جاتی، قومی یا عالمی سطح پر کاربن آلودگی کم کریں گے، اتنی ہی کم گرمی ہم مستقبل میں دیکھیں گے، اور اتنا ہی کم اثر کھیلوں پر پڑے گا۔
بھارت میں زیادہ شدید خطرہ
رپورٹ کے مطابق، انڈین پریمیئر لیگ میں 2025 کے 36 فیصد میچز ’ایکسٹریم کاشن‘ حالات میں کھیلے گئے، جب کہ 12 فیصد میچز ’ڈینجر‘ زمرے میں آ گئے، جہاں ہیٹ اسٹروک کا خطرہ نمایاں ہوتا ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی ) تاحال یو این اسپورٹس فار کلائمیٹ فریم ورک کی رکن نہیں بنی، کرکٹ آسٹریلیا اور انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے پہلے ہی گرمی سے نمٹنے کے لیے پالیسیز اور سسٹین ایبلٹی اسٹریٹجی مرتب کی ہیں۔
ڈاکٹر ڈال کا ماننا ہے کہ آئی سی ای کو اپنے ممبران کو واضح ہدایات دینی چاہئیں کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے کیسے نمٹیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی ہیٹ انڈیکس یا ہوا کے معیار کی حد سے اوپر میچز ملتوی یا منسوخ کیے جاتے تو آج تو شاید چند ہی ایونٹس متاثر ہوتے، لیکن مستقبل میں جیسے جیسے موسم شدید ہوتا جائے گا، ایسے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم آج سے یہ اقدامات اختیار کریں تو مستقبل میں گرم ہوتی دنیا کے لیے کھیلوں کو تیار کیا جا سکتا ہے