سٹی کورٹ کراچی میں ضمانت کا عمل آسان، نامزد بینک اکاؤنٹس میں نقد رقم جمع کرانے کی اجازت
جنرل سیکریٹری رحمٰن کورائی کے مطابق کراچی بار نے سندھ ہائیکورٹ سے درخواست کی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ نے ضمانت کے مچلکوں کے حوالے سے عمل کو آسان بنا دیا ہے، جس کے تحت درخواست گزار یا ان کے اہل خانہ ماتحت عدلیہ سے ضمانت ملنے کے بعد نامزد بینک اکاؤنٹس میں نقد رقم جمع کرا سکتے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ اس عمل کو ’ڈپازٹ سلِپ میکنزم‘ کہا جاتا ہے اور وکلا برادری نے اس اقدام کو سراہا ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس سے ضمانت کا عمل مزید شفاف اور تیز ہو جائے گا۔
یہ طریقہ کار سٹی کورٹ میں نافذ کیا گیا ہے، جہاں شہر کی 4 ضلعی عدالتوں (جنوبی، مشرقی، مغربی اور وسطی) کے ساتھ ساتھ ملیر کی ضلعی عدالت بھی موجود ہے۔
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار سہیل محمد لغاری نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ ابتدائی طور پر یہ سہولت صوبائی دارالحکومت کی ضلعی عدلیہ میں نافذ کی گئی ہے، اور دیگر اضلاع کے مقدمات سے منسلک افراد کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سہولت وہاں بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔
ضمانتی بانڈز کی جگہ نقد ڈپازٹ سلِپ میکنزم کا نفاذ
عدالتی حکام نے بتایا کہ ڈپازٹ سلِپ طریقہ کار سندھ ہائی کورٹ میں نافذ کیا گیا تھا اور پھر سٹی کورٹ میں متعارف کرایا گیا ہے، تاکہ ضمانتی بانڈز / نیشنل سیونگز سرٹیفکیٹس کی جگہ لے سکے اور عمل کو تیز بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ گاڑیوں اور جائیداد کے کاغذات عدالت میں ضمانت کے طور پر جمع کرانے کا عمل اب بھی موجود ہے، لیکن ان دستاویزات کی تصدیق اور قیمت کا تعین وقت طلب مرحلہ ہوتا ہے۔
جنوری میں اُس وقت کے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی نے اجازت دی تھی کہ سٹی کورٹ میں ایک نجی بینک کی برانچ میں ضمانتی بانڈز کی جگہ ڈپازٹ سلِپ میکنزم نافذ کیا جائے، جیسا کہ یہ نظام ہائی کورٹ میں پہلے سے رائج تھا، تاکہ وکلا اور مقدمات سے منلسک افراد کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے متعلقہ ضلعی و سیشن ججوں کو اس میکنزم کے نفاذ کے لیے خطوط جاری کر دیے ہیں۔
اس کے بعد ضلعی ججوں نے متعلقہ عدالتی افسران کو اس عمل کے نفاذ کی ہدایات دے دی ہیں۔
مارچ میں سندھ ہائی کورٹ نے دوبارہ خطوط جاری کیے تھے، کیوں کہ نجی بینک کی برانچ سٹی کورٹ سے منتقل ہوگئی تھی، لہٰذا نیشنل بینک آف پاکستان (سٹی کورٹ برانچ) کو اس مقصد کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
چنانچہ متعلقہ عدالتی اضلاع کے ڈرائنگ اور ڈسبرسنگ افسران نے نیشنل بینک سٹی کورٹ برانچ میں ہر ضلع کے لیے شو رٹی اکاؤنٹ کے نام سے ایک اکاؤنٹ کھولا ہے۔
طریقہ کار
طریقہ کار کے مطابق، جو شخص ضمانت کے طور پر رقم جمع کرانا چاہے، وہ متعلقہ عدالت سے ایک واؤچر وصول کرے گا، جس پر کلرک آف کورٹ (سی او سی) کے دستخط اور عدالت کی مہر ہوگی، یہ واؤچر بینک میں جمع کرایا جائے گا اور بینک کی رسید، رقم جمع کرانے کے بعد، بینک سے تصدیق کے بعد عدالت کے نزدیک ضمانت کے طور پر قبول کی جائے گی۔
عدالتی حکام نے بتایا کہ یہ بھی یقینی بنایا جا رہا ہے کہ جمع شدہ رقم مقررہ طریقہ کار کے تحت ہو اور تمام ضروری دستاویزات مکمل ہوں، بینک واؤچرز پر متعلقہ عدالتوں کے نام، جرائم کی تفصیل، کیس نمبر، تھانے، ایف آئی آر نمبر اور دیگر ضروری معلومات درج کی جاتی ہیں۔
6 اگست کو سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے ایک اور سرکلر جاری کیا، جس کے تحت یہی طریقہ کار ڈسٹرکٹ کورٹ ملیر میں بھی نافذ کیا گیا ہے۔
سرکلر میں کہا گیا ہے کہ اس عدالت کے مورخہ 06.03.2025 کے خط کے تسلسل میں، میں ہدایت پر یہ بیان کرنے کا مجاز ہوں کہ چیف جسٹس محمد جنید غفار نے اجازت دی ہے کہ ڈپازٹ سلِپ میکنزم کو نیشنل بینک آف پاکستان ملیر سٹی برانچ میں ڈسٹرکٹ و سیشن کورٹ ملیر کے لیے بھی نافذ کیا جائے، جیسا کہ کراچی کے جنوبی، مشرقی، مغربی اور وسطی اضلاع کی عدلیہ میں کیا گیا ہے۔
کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) کے جنرل سیکریٹری رحمٰن کورائی نے کہا کہ کے بی اے نے سندھ ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ سٹی کورٹ میں ڈپازٹ سلِپ کا طریقہ کار متعارف کرایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جعلی ضمانتوں کے کیسز رپورٹ ہو رہے تھے اور وکلا اور ان کے مؤکلین کو ضمانتی بانڈز/ نیشنل سیونگز سرٹیفکیٹس حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا، جو بہت وقت طلب تھا۔
رحمٰن کورائی کے مطابق نیا طریقہ کار زیادہ شفاف اور تیز رفتار ہے، مقدمہ بازوں اور وکلا دونوں کو اس سہولت سے فائدہ پہنچ رہا ہے








































