
بریتھ پاکستان: موسمیاتی تبدیلی کےخلاف جنگ اکیلے نہیں لڑی جا سکتی، احسن اقبال
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے جس کے خلاف جنگ اکیلے نہیں لڑی جاسکتی۔
موسمیاتی تبدیلی پر ’بریتھ پاکستان‘ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی کے اس عالمی مسئلے پر آواز اٹھانے، اپنے اخبار میں خصوصی سپلیمنٹ شائع کرنے اور آج کی اس کانفرنس کے انعقاد پر ڈان میڈیا گروپ اور ان کے شراکت داروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آج کی اس کانفرنس میں دنیا بھر کے ماہرین ایک اہم عالمی مسئلے موسمیاتی تبدیلی کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں، یہ وقت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم اقدامات کرنے کا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا اہم مسئلہ ہے، کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود پاکستان کو اس تبدیلی کے سنگین نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
انہوں نے 2022 کے سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2 سال قبل ہمارے ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب کے سبب ڈوب گیا تھا، 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا، 1700 افراد کی جانیں گئیں، 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی بڑ اخطرہ ہے، جب کہ ہمارے ملک کا ایک اور بڑا مسئلہ اسموگ کا ہے، خراب ایئر کوالٹی کے سبب لوگوں کی سحت اثر انداز ہو رہی ہے۔
آخر میں احسن اقبال نے اس امر پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کی یہ لڑائی اکیلے نہیں لڑ سکتے اس میں مزید ممالک کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے، نمائندہ اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ اینڈ ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ کا کہنا تھا کہ اس خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے خطے کو کیا نقصانات بھگتنا پڑ رہے ہیں، غیر معمولی گرمی، شدید بارشیں، سیلاب، خشک سالی اور موسمی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے 2022 کے سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2022 میں پاکستان نے ایک سنگین سیلاب کا سامنا کیا، اس سیلاب کی وجہ سے 30 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا نقصان اٹھانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ 2022 کے سیلاب میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا تھا، جو پوری دنیا کے الیے الارمنگ کال ہے، تاہم کاربن کے اخراج کا سلسلہ جاری ہے۔
محمد یحییٰ نے کہا کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے، دنیا کے 20 امیر ترین ممالک کا کاربن کے اخراج میں 80 فیصد حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خطے کے دیگر ممالک خاص طور پر پاکستان کا کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود وہ متاثرہ ترین ممالک میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اکثر موسمیاتی ناانصافیوں کے حوالے سے سنتے ہیں لیکن اس ملک کی کئی کمیونٹیز اس حقیقت کا سامنا کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے نمائندے نے ’کوپ29‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو 30 ارب دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، تاہم ماضی کی وعدہ خلافیوں کے بعد ہم دیکھیں گے کہ اس مرتبہ کیا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے لیے ایک معقول بجٹ کا تقاضا کرتے ہیں، جب کہ ماحولیاتی آلودگی بھی اب ختم ہونی چاہیے، ہمیں موسمیاتی فنانس کا مطالبہ کرنا چاہیے جو معقول، قابل رسائی، مناسب اور منصفانہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ اور قومی استثنیٰ کا دور بھی ختم ہونا چاہیے، ہمارے سیکریٹری جنرل نے آلودگی پھیلانے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس حل کا حصہ بننے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
300 ارب ڈالر کی رقم کا بیشتر حصہ قرض ہے، ڈائریکٹر ورلڈ بینک
عالمی بینک میں موسمیاتی تبدیلی کی عالمی ڈائریکٹر ویلری ہکی نے کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ مرجائیں گے، اگر ہم اس بات کا انتظار کریں گے کہ گلوبل نارتھ کی جانب سےوہ تمام رقم رکھی جائے، جو انہیں اخلاقی طور پر دینی چاہیے۔
پیرس معاہدے کے تحت ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی پر این سی کیو جی کے ساتھ آنے میں بہت خوش ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 100 ارب ڈالر سے 300 ارب ڈالر تک منتقل ہونے ہیں، یہ بہت خطیر رقم لگتی ہے، تاہم ایسا نہیں ہے، اس کا زیادہ تر حصہ قرض پر مشتمل ہے، یہ گرانٹ نہیں ہے، اس میں سے زیادہ تر پہلے سے ہی موجود ہے، یہ اضافی نہیں ہے۔
آخر میں ویلری ہکی کا کہنا تھا کہ میں تجویز کرتی ہوں کہ اس کانفرنس کا نام ’بریتھ پاکستان‘ سے تبدیل کر کے ’لیڈ پاکستان‘ کیا جائے۔
خیبرپختونخوا پاکستان کا کاربن سنک ہے، علی امین گنڈاپور
تقریب سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خیبر پختونخوا کے حوالے سے دہشت گردی کے بارے میں ضرور سنا ہوگا، لیکن آج میں یہاں اپنے صوبے اور ہمارے لوگوں کی جانب سے ملک کے لیے دی جانے والی خدمات کو پیش کرنے کے لیے آیا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کے پی کی 37 فیصد زمین جنگلات پر مشتمل ہے، اور یہ پاکستان کے جنگلات کا 40 سے 45 فیصد ہے، کاربن سنک کے طور پر پاکستان سے 50 فیصد کاربن نکال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک کی تحقیق کے مطابق اتنے جنگلات کے لیے ہمیں سالانہ کم از کم 332 ارب روپے درکار ہیں، میں اتنا پیسہ لگانے کے قابل نہیں ہوں، لیکن کم از کم میرا صوبہ اور میرے لوگ اتنی بڑی رقم کا کام کرنے کے قابل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لیڈرعمران خان نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کی حمایت کی ہے، 2017 سے اب تک ہم نے اپنے جنگلات کے رقبے کو بہتر بنانے اور بڑھانے کے لیے خیبر پختونخوا میں 67 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔
اس حوالے سے بین الاقوامی معیار 25 فیصد ہے، لیکن (خیبر پختونخوا) اب 26 فیصد خرچ پر ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم نے بین الاقوامی معیارات حاصل کر لیے ہیں، اور اس سے بالاتر ہیں