اسلام آباد – قمر ریاض نے اپنی تحریری غزل کی ویڈیوز ریلیزکردی . غزل کی ویڈیوز ریلیز پر قمر ریاض نے کہا.سر سنگیت ،آرٹ ، ادب ، کلچر میرے وجود کا بیک وقت اس طرح حصہ ہیں کہ کبھی تنہائی بھی ہو تو تنہائی محسوس نہیں ہوتی کچھ لکھتے ،سنتے ، دیکھتے وقت گزر جاتا ہے ان شعبوں سے وابستہ لوگ میرے دل سے خود بخود جڑتے چلے جاتے ہیں کبھی کبھی تو کسی کے لکھے ہوئے چند جملے کئی دن بے چین رکھتے ہیں اور کبھی کسی کی سریلی آواز سے گایا ہوا گیت ہونٹوں پر اس طرح چپک جاتا ہے کہ بے خودی میں زیر لب وہی بول گنگناتا رہتا ہوں سروں کی لے اور لفظوں کی تپش اپنے اندر ایک ایسی لپک رکھتی ہے کہ جن میں جل کر انسان راکھ بھی ہو جائے تو کم ہے شائد اسی طرح سے انسان اپنے اندر کے وجدان میں چھپے ہوئے انسان کے راز کی حقیقت سے آ شکار ہو سکتا ہے – مگر ان سب سے بڑھ کر کائنات کا رب ہے جو سب سے بڑا تخلیق کار ہے جو تخلیق کاری کی صفت عطا کرنے والا ہے – وہی ہے جو سب کچھ ہے –
جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا اور پھر ان خوابوں کی تعبیروں کو پا لینے والے لوگ مقدر کے سکندر ہوتے ہیں ہمارے آس پاس قسمت سے شکایت کرنے والے لوگ بہت زیادہ ملیں گے مگر اپنی قسمت پر رشک کرنے والے بہت کم ، کچھ تو سب مل جانے کے بعد بھی کچھ پورا نہ ہونے کی کمی میں ایک ان دیکھی محرومی کو خود پر اس طرح حاوی کر لیتے ہیں کہ پھر ساری زندگی اسی ایک محرومی میں گزار دیتے ہیں –
مجھے اپنی قسمت کی کسی محرومی کا گلہ نہیں جو رشتے میری زندگی سے اللہ نے اپنی امانت سمجھ کر اٹھا لئے ہیں میں ان پر بھی راضی بہ رضا ہوں اور جو لوگ میری زندگی میں کسی ساز اور آواز کی طرح شامل کر دئیے گئے ہیں میں ان پر بھی نازاں ہوں –
وجیہہ نظامی میرا ایسا ہی ایک دوست ہے جو محبت کے ولی میرے دوست علی یاسر نے اپنی زندگی میں جاتے ، جاتے مجھے سونپ دیا میں سوچتا ہوں میں وجہیہ نظامی سے یا علی یاسر سے نہ ملا ہوتا تو میری بھی کوئی زندگی ہوتی ستار پر تھرکتی وجیہہ نظامی کی انگلیاں امیر خسرو کی پہلیاں چھیڑ دیتی ہیں اتنی اوائل عمری میں میرے دوست کو اللہ نے وہ فن عطا کر دیا ہے کہ اس کا عروج ساری دنیا دیکھے گی مسقط میں وجیہہ نے ستار بجا کر وہ دھنیں چھیڑی کے پورے تھیٹر ہال میں کھڑے ہو کر لوگوں نے تالیاں بجا کر خراج تحسین پیش کیا –
وجیہہ مجھ سے محبت کرتا ہے ، اس لئے بھی کہ علی یاسر مجھ سے محبت کرتا تھا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے اس لئے بھی محبت کرتے ہیں کہ علی یاسر کو ہم دونوں سے محبت تھی یار علی یاسر تمہیں جانے کی کیا جلدی تھی ؟ دیکھو مجھ سے تو تمہارے بغیر وجیہہ کا تعارف بھی مکمل نہیں ہو سکتا حالانکہ وجیہہ ایک ایسا مکمل نظامی ہے جس کے اندر سر ، لے اور تال تینوں اس کے ستار کی زبان میں بولتے ہیں وجیہہ اسلام آباد میں رنگ میوزک اور آرٹ کے نام سے اکیڈمی بھی چلاتے ہیں اور موسیقی کی تربیت بھی دیتے ہیں یعنی موسیقی کا نظامی استاد ہے –
پچھلی برس ہم نے سابقہ سفیر پاکستان اور اس وقت فارن آفس میں اعلی عہدے پر تعینات جناب علی جاوید کی سربراہی میں مسقط میں ادب اور آرٹ کا میلہ سجایا تھا اس بار ہم نے سوچا کیوں نہ کچھ الگ طرح کا پراجیکٹ ہم دونوں مل کر کریں زیاع جن کا اصل نام راضیہ ابرار ہے کی آواز وجیہہ کے رنگ میوزک پیج سے گونجی اور ہم دونوں نے مل کر اس آواز کو دنیا کے سامنے پیش کرنے اور جدید غزل کے موضوع کو نئی نسل کے سامنے اک نئے اسلوب نئی آواز اور نئے ساز کے ساتھ پیش کرنے کی ٹھان لی وجیہہ کو یہ ڈر کہ رنگ میوزک کی پہلی پیشکش ہے نئی آواز ہے سب کیسے ہو پائے گا مگر مجھے خود پر یقین تھا کہ یہ سب ممکن ہے یہ اندر کا یقین ہی سب کرواتا ہے یہ وہی یقین ہے جس پر میں آج اپنے پیروں پر کھڑا ہوں اور پھر ہمارے پاس پیٹرک حبیب چشتی بھی تو تھا ایک ایسا امریکن نیشنل جو ایک سال سے پاکستان میں ہے اور موسیقی اور صوفی ازم سے لگاو نے اسے وجیہہ نظامی کے در پر لا کھڑا کیا ہے ایسا بہترین میوزیشن کے کچھ بھی تیار کرے تو لوگ سر دھننے لگ جائیں بس پھر کام شروع ہوا کمپوزیشن وجیہہ نے خود تیار کی اسکرپٹ میں نے لکھا اور میری ہی غزل کی دھن تیار کی گئی اور بہت ہی ٹیلنٹڈ ٹیم کا انتخاب کیا گیا سب نے ایک سے بڑھ کر ایک کام کیا اسکرپٹ تھا یا کہیں نہ کہیں آجکل کے ہر نوجوان لڑکا لڑکی کی داستان جس میں ایکٹرس کے طور پر خوبصورت مہراب سید اور ایکٹر کے طور پر عثمان ہدایت نے کام کیا جبکہ اس کی ڈائریکٹر اور پرڈیوسر اقرا ء فیاض تھی جنہوں اپنی ذمہ داری بہت اچھی نبھائی اور شاندار کام کیا اس سارے مرحلے میں کمپوزیشن سے لے کر اسکرپٹ اور پھر فائنل ویڈیو آنے تک جہاں جہاں مجھے لگا کہ بہتری کی گنجائش ہے اس پر اپنا ریویو دیتا رہا بہت محنت سے ہم نے اس پراجیکٹ پر کام کیا کہ رنگ میوزک کو دنیا کے سامنے ہم رنگ اسٹوڈیو کی شکل میں پیش کر سکیں تاکہ دنیا کو لگے کہ نئے لوگ مل کر بھی اتنا اچھا کام کر سکتے ہیں پرانے سنگرز اور میوزیشنز سب قابل احترام ہیں ان کےفن کا جادو ہمارے دلوں میں جاگتا ہے مگر نئی نسل کو اپنا ایک معیار مقرر کرنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے ہم نے ایک ٹرینڈ سیٹ کرنے کی کوشش کی ہے یہ کوشش کس قدر کامیاب ہوئی اس کا ثبوت دنیا بھر سے آنے والے یو ٹیوب پر موجود کمنٹس سے ہو رہا ہے اور بہت تیزی سے اس کی وویور شپ میں اضافہ ہو رہا ہے یہی اصل کامیابی ہے –
ہر دلعزیز عطا الحق قاسمی لاہور سے خصوصی طور پر اسلام آباد اس غزل کی ویڈیو لانچنگ تقریب میں شرکت کرنے کے لئے تشریف لائے یہاں لفٹ کا مسئلہ تھا مگر جس وہ گھٹنوں کے درد کے باوجود دو منزلہ سیڑھیاں چڑھ کر اس تقریب میں شریک ہوئے مجھے علم ہے کہ یہ ان کے لئے کتنا مشکل تھا مگر واقعی ایسا ظرف کسی بڑے آدمی کا ہی ہو سکتا ہے آپ نے صدارتی کلمات میں ، ضیاع، وجیہہ نظامی ، پیٹرک حبیب چشتی اور پوری ٹیم کی بے حد تعریف کی – میرے نزدیک اس تقریب کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں عہد حاضر کے نامور ادیب ، کالم نگار ، شاعر ، ڈرامہ نگار اور طنز و مزاح کے عہد حاضر کے سر خیل جناب عطا الحق قاسمی ، صاحب صدر تھے –
سابقہ سفیر پاکستان علی جاوید کمال شخصیت کے مالک ہیں تین سال عمان میں سفیر پاکستان رہے اور سفارت خانہ پاکستان اور عمان میں موجود پاکستانیوں کی بہتری کے لئے سفارتی لحاظ سے کئی اعلی کام کئے دونوں ملکوں کے اعلی عسکری سطح پر تعلقات قائم کرنے میں ان کا بڑا کردار ہے آپ ہمیشہ آرٹ ، ادب اور فن کے قدردان رہے ان کو مہمان خصوصی کے طور پر جب میں نے اس ویڈیو کی ریلیزنگ تقریب میں آنے کی دعوت دی تو کہنے لگے میں ضرور آونگا لیکن عام مہمان کے طور پر اور میرا نام یا تصویر کسی بھی طرح کسی بھی خوش آمدیدی پوسٹر میں شامل نہ ہو یہ ان کا بڑا پن ہے میں نے جناب علی جاوید کے ساتھ تین سال مسلسل کام کر کے بہت کچھ سیکھا ہے سب سے زیادہ یہ کہ ہر کام میں پرفیکشن ہونی چاہیئے اور چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کرو تو اس میں خوش اسلوبی نظر آئے ان کے آنے سے مجھے بے حد خوشی ہوئی اور پھر جو گفتگو انہوں نے کی اسے ہر آرٹسٹ نے پسند کیا آجکل وہ فارن آفس میں بڑے عہدے پر فائز ہیں –
اس تقریب کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں جو بھی شخصیات شریک ہوئیں وہ اپنی اپنی ذات میں بے حد کمال تھیں ڈاکڑ انعام الحق جاوید حکومت پاکستان کے ادارے وفاقی محتسب کی جانب سے آجکل کمشنر اوورسیز شکایات سیل ہیں جبکہ زاہد گوہر ملک انگریزی اخبار آبزرور کے روح رواں ہونے کے علاوہ حکومتی حلقوں میں اپنے انگریزی اخبار کے حوالے سے بہت مصروف اور پسندیدہ شخصیت ہیں آپکا وقت نکال کر آنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے اسی تقریب کے اگلے دن انہوں نے صدر پاکستان جناب عارف علوی کا خصوصی انٹرویو بھی کیا – جناب قاسم بھوگیو سابقہ چیئرمین ادبیات رہے وہ بھی خاص طور پر میری دعوت پر تشریف لائے ، باکمال شاعر اور ہر دلعزیز حسن عباس رضا ، میرے بھائیوں جیسے دوست اور اعلی شاعر ، ادیب ڈاکڑ جنید آذر اور ادب کا روشن استعارہ جناب محبوب ظفر بھی شامل تقریب رہے ، عزیر احمد بھائی بھی خاص طور پر لاہور سے اسلام آباد اس تقریب کے لئے تشریف لائے –
پیٹرک حبیب چشتی نے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں موسیقی کا اک جہان آباد ہے اور میں مستقل یہاں رہنا چاہتا ہوں –
جب یہ ویڈیو ریلیز کی گئی تو ایک ، ایک شعر ، میوزک کی دھن اور سنگر ‘ زیا ‘ کی خوبصورت آواز اور مہراب سید اور عثمان ہدائیت کی بہترین اداکاری پر تالیوں کی گونج ہمارا حوصلہ بڑھاتی رہی میری آنکھیں بھی نم ہوئی کہ اس وقت ہر آنکھ میں ہمارے لئے محبت اور ستائش تھی جس سے لگا کہ ساری محنت وصول ہو گئی سنگر ‘ زیا ‘ اور پروڈیوسر اقرا ء فیاض نے اس ویڈیو بنانے کے دوران اپنے خوبصورت تجربات بھی شیئر کئے کہ کیسے اس ویڈیو کو مکمل کیا گیا –
اس ویڈیو ریلیز کی مختصر تقریب نے جہاں کئی ان مٹ نقوش وہاں موجود لوگوں کے ذہنوں پر چھوڑے وہیں ہمارا یہ ویڈیو پراجیکٹ آواز اور شاعری لوگوں کو پسند آ رہی ہے اور ان شا ء اللہ مزید آئے گی – علی یاسر کے بیٹے عمار یاسر بھی اس ویڈیو کا حصہ رہے اور تقریب کے دن بہت محبت سے پیش آئے مجھے عمار میں اپنے دوست علی یاسر کی جھلک دکھائی دیتی ہے – وجیہہ کے چھوٹے بھائی فیضان اور بہنیں بھی تقریب میں شریک ہوئیں-
اپنی پوری ٹیم کو میں اس کامیاب اور خوبصورت ویڈیو لانچنگ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ان شاء اللہ اگر لوگوں نے پسند کیا تو ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور ہماری کوشش ہو گی کہ کوک اسٹوڈیو کی طرز پر ایک نئے ” رنگ اسٹوڈیو ” کو بھرپور طریقے سے مستقبل قریب میں متعارف کروا سکیں –
غزل کا پہلا مصرع تو یہی ہے کہ ” چھوڑ کے تجھ کو جانے والے نہیں ” مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ چھوڑ کے جانے والے چھوڑ کر چلے ہی جاتے ہیں اور جانے والوں کو بھلا کون روک سکتا ہے –









































