
اسلام آباد:وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پہلی قومی پارلیمینٹرینزکشمیر کانفرنس میں کشمیر کی آزادی کا روڈ میپ وضع کرنے کا مطالبہ کردیا گیا،
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کا غلط خیرمقدم کیا گیا ہے، سپریم کورٹ بھارتی حکومت کو عالمی دباؤ سے نکالا ہے اور بیل آؤٹ کیا ہے،بھارت اگلے مرحلے میں پاکستان کے پانیوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے بھارت کیا پاگل ہوگیا ہے کہ آزادکشمیرپر حملہ کرے گا اور ہم کیا مقبوضہ کشمیر میں آخری کشمیری کے قتل کا انتظارکررہے ہیں جب کہ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدرنے کہا ہے کہ ہمیں آپ کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد نہیں چاہئے یہ وقت چلا گیا ہے یہ کہنے کی باتیں ہیں حد ہو گئی ہے ہمیں عملی اقدامات چاہیں،
ہم اپنا نام میر صادق اور میر جعفر کے ساتھ نہیں حیدر علی کے ساتھ لکھواتے ہوئے امر ہو جائیں گے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے مولانا فضل الرحمان سے کہا ہے کہ وہ آزادی مارچ کے ساتھ کشمیر بھی لکھ دیں احتجا ج ان کا جمہوری حق ہے ہم نے بھی یہ حق استعمال کیا تاہم جیمعت علما ہند نے تو بیان دیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
پہلی قومی پارلیمینٹرینزکشمیر کانفرنس جناح کنونشن سنٹر میںہوئی چیئرمین سینیٹر صادق سنجرانی نے صدارت کی، حکومت اپوزیشن کے نمائندوں نے خطاب کیا، وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہوئے، جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن دعوت کے باوجودشریک نہیں ہوئے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ مولانا فضل الرحمن سے مودبانہ عرض ہے کہ آزادی مارچ میں کشمیر کا لفظ بھی شامل کردیں ہم ان کے مشکور ہوں گے احتجاج ان کا جمہوری حق ہے ہم بھی ایسا کرچکے ہیں مگر جمعیت علماء ہند توکشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے رہی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کشمیر پر پوری قوم ایک ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی پشت پر ہے۔ دنیا کی توجہ کو اس جانب مبذول کروا چکے ہیں۔ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہ پوری قوم کا فیصلہ ہے کہ ہم اپنے دیرینہ اصولی موقف پر قائم ہیں۔ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی طرف سے مقدمہ کشمیر پیش کیا جائے گا۔ عمران خان کی تقریر کو تحریری صورت دی جا رہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان قوم کے جذبات کو مجروح نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ فرانس پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ بھارت اس سے 20 ارب ڈالر کی ڈیل کر سکتا ہے۔ روس کے پاس بھی گئے تھے مگر بھارت کو ہر جگہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ 54 سال بعد سلامتی کونسل میں اس پر بحث ہوئی۔ 58 اسلامی ممالک نے ہمارے موقف کی حمایت کی۔ 28 یورپی ممالک مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کر چکے ہیں اور گزشتہ شب یورپی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر اہم کارروائی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ جنیوا میں تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی بھارتی موقف کو مسترد کر چکی ہیں۔ ہمیں حقیقت پسندی سے کام لینا ہو گا۔ او آئی سی کی بنیاد مسئلہ فلسطین پر رکھی گئی مگر جب اسرائیلی دارالحکومت یروشلم میں منتقل کیا گیا تو او آئی سی کہاں تھی۔
او آئی سی کی طرف سے تو اس طرح کی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ آج او آئی سی کے ممالک کی سوچ میں خلیج نظر آ رہی ہے جس کی وجہ سے جی سی سی غیرفعال ہو کر رہ گئی ہے اس کے باوجود ہم او آئی سی کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ او آئی سی نے کشمیریوں کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سفارتکاری مرحلہ وار کوشش کا نام ہے اور یہ طویل المیعاد بھی ہوتی ہے چٹکی بجا کر مسئلے حل نہیں ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ 72 سالوں میں کیا کیا۔ سیاست سے بالا تر ہو کر کشمیر کاز اجاگر کر رہے ہیں۔ کشمیری بھی یکجا ہیں بلکہ بھارت تقسیم ہو چکا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی اس لئے بات کی کہ غلام نبی آزاد کو سرینگر تک رسائی ان حالات میں اجازت دی گئی ہے۔
جب عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی رسائی حاصل نہیں ہے۔ اکتوبر میں بھارتی سپریم کورٹ میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق چودہ پٹیشنز زیرسماعت آئیں گی۔ ہمیں ایسا ماحول بنانا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کشمیر کے تاریخی پہلو کو سامنے رکھنے پر مجبور ہے۔ راہول گاندھی کی قیادت میں اپوزیشن کی 10 سیاسی جماعتوں کو بھارت سرینگر سے واپس کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئیں آج فیصلہ کر لیں عوامی ریفرنڈم کر لیں وزیراعظم پاکستان مظفرآباد میں برملا خطاب کر سکتے ہیں۔ مودی سرینگر سے کرفیو ہٹائے اور وہاں جا کر خطاب کرے کہ میں ان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہا ہوں۔ لگ پتہ جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کارروائی اہم ہے فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی وزیر خارجہ نے بریفنگ دی کہ مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا وار زون بن گیا ہے۔
کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ یہ پاکستانی موقف کی فتح ہے۔ 28 یورپی ممالک ہمارے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انسانی حقوق کی بحالی کے لئے سب ہمنوا ہیں۔ امن کے کارکنوں تک رسائی نہیں ہے۔ یہی یورپی پارلیمنٹ نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں پابندیاں یورپی پارلیمنٹ سے اجاگر ہوئی ہیں۔
واضح کیا گیا ہے کہ سرینگر میں کرفیو ہے انہوں نے کہا کہ ستائیس ستمبر کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے میں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو گزشتہ روز خط لکھ دیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے ممکنہ طور پر کن معاملات پر بات کی جا سکتی ہے تاکہ رکن ممالک کو آگاہ کیا جا سکے۔ وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں تین لاکھ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔
تین لاکھ نے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ دس ہزار لوگوں کو غائب کیا گیا۔ دس ہزار خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ دس ہزار بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں بچوں اور بچیوں کی آنکھوں کی بصارت چھین لی گئی ہے۔ لاتعداد گمنام قبریں ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھی بعض عاقبت نااندیشوں نے پلوامہ کو سانحہ قرار دیا۔ غلامی کسی کو قبول نہیں ہے۔
آر ایس ایس بی جے پی کو ہائی جیک کر چکی ہے۔ مودی اکھنڈ بھارت کے لئے لشکر بنا چکا ہے۔ کشمیر چلا گیا ہے۔ اب معلوم ہو گیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی بقا کی جنگ ہے کیونکہ کشمیریوں کی وجہ سے بھارتی فوج کی بڑی جمعیت پہاڑوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر امت مسلمہ کا مسئلہ نہیں ہے تو پھر کوئی اور مسئلہ بھی امت مسلمہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم دوسروں کی لڑائی لڑتے رہے۔ کشمیر پر وقت آیا تو کوئی ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہو رہا ہے۔
کشمیریوں کو کلیدی کردار دیں بھارت کو پچھاڑ دیں گے۔ غلام نبی آزاد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا پاکستان کے وزیر خارجہ کی طرف سے غلط خیرمقدم کیا گیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتی حکومت کو عالمی دباؤ سے نکالا ہے۔ بھارتی حکومت کو بیل آؤٹ کیا ہے۔ ہندو بنیے کی چالوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ بھارت اگلے مرحلے میں پاکستان کے پانیوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ بھارتی سپریم کورٹ اپنی حکومت کو ہدایت کر چکی ہے کہ چالیس دریاؤں کو آپس میں منسلک کریں۔ ہم نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کر کے غلطی کی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کبھی اپنی حکومت کے خلاف نہیں گئی۔ ہم کب تک ڈالروں کے پیچھے رہیں گے کہ ہم آخری کشمیری کی شہادت کا انتظار کر رہے ہیں۔
بھارت پاگل ہو گا اگر وہ آزادکشمیر پر حملہ کرے گا۔ وہ مقبوضہ کشمیر کو لے چکا ہے اور کیا ہم آخری کشمیری کے قتل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم بیان کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر اشک بار ہو گئے اور کہا کہ ذلت کی زندگی نہیں چاہئے۔ جگہ جگہ عصمت دری ہو رہی ہے۔ برہنہ کر کے لوگوں کو سڑکوں پر دوڑایا جا رہا ہے۔
ہم نہ رہے تو پاکستان کے وجود پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ شملہ معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔ سیز فائر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم وزیراعظم پاکستان کے اقوام متحدہ سے خطاب کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان ہماری آزادی کا ضامن ہے۔ مگر ہم ذلیل و خوار نہیں ہونا چاہتے۔ ایٹم بم کی بات کرنا کمزوری ہے کیا ہم روایتی جنگ میں مقابلہ نہیں کر سکتے۔
حلفاً کہتا ہوں کہ سیزفائر سے آگے قدم بڑھائیں۔ سارے آزادکشمیر کے عوام صف اول میں ہونگے۔ پشتونوں کے کشمیری شکرگزار ہیں جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے۔ آج بھی ہم ان کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی قوم سے کوئی گلہ نہیں ہے جن کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہے ان سے کہنا چاہتے ہیں کہ آزادی کے لئے آخری کشمیری تک لڑے گا۔ کوئی ہتھیار نہیں ڈالے گا کیونکہ ہمارے پاس گنوانے کے لئے کچھ نہیں رہا۔
ہمیں آپ کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد نہیں چاہئے یہ وقت چلا گیا ہے۔ یہ کہنے کی باتیں ہیں حد ہو گئی ہے۔ ہمیں عملی اقدامات چاہئیں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم اپنا نام میر صادق اور میر جعفر کے ساتھ نہیں لکھوائیں گے ہم اپنا نام حیدر علی کے ساتھ لکھواتے ہوئے امر ہو جائیں گے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بستیاں ویران، قبرستان آباد ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم آزادکشمیر کے موقف کی حمایت کرتا ہوں۔ عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ پشتونوں نے کشمیر کو آزاد کروانے کیلئے جو بندوقیں استعمال کی تھیں وہ بندوقیں آج بھی گھروں میں موجود ہیں۔
اقوام متحدہ اگر چوبیسویں قرارداد بھی منظور کر لی تو کشمیر کا مسئلہ تو ایسے ہی رہے گا جو اپنے پاؤں پر نہیں کھڑے ہو سکتے پھر دوسرے ان کے جنازے اپنے کندھوں پر قبرستان لے جاتے ہیں انہیں زندگی نہیں دی جاتی۔ ایک ہزار سال لڑنے کی بات کی اور ایک دن بھی نہیں لڑے 72 سال ہو گئے ہیں۔ 80 لاکھ کشمیری محاصرے میں ہیں۔ یہ قیادت کی آزمائش کا وقت ہے۔ قوم کو ڈرانے کی ضرورت نہیں ہے قیادت کو فیصلے کرنے ہوتے ہیں کیا ہم آخری کشمیری کو دفنانے کا انتظار کر رہے ہیں۔
سلام پیش کرتا ہوں معصوم بچے نے بھی اور 90 سالہ بزرگ نے بھی پتھر ہاتھ میں اٹھا رکھا ہے اور بھارتی فوج کو للکار رہا ہے۔ کشمیر نظریاتی، جغفرافیائی، معاشی اور سیاسی شہ رگ ہے گزشتہ 45 دنوں میں ساڑھے تین سو لڑکیاں اٹھا لی گئی ہیں۔ ہم کہاں ہیں۔ جہلم میں کشمیری ماؤں بہنوں کے دوپٹے آ رہے ہیں اور پانی خون سے رنگین ہے۔ ہم ایسے حالات میں آنکھوں سے آنکھیں ملا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر مطالبہ کرتا ہوں کہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کو سارے کشمیر کا وزیراعظم قرار دیا جائے آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو آر پار کی اسمبلی قرار دیا جائے اور اس کا نیویارک میں اجلاس طلب کیا جائے۔ فیصلہ کن جدوجہد کا وقت ہے یہاں بھی کچھ بزدل موجود ہیں جو کبھی معیشت سے ڈراتے ہیں کبھی کسی اور چیز سے کشتیاں جلانے کا وقت ہے تب ہی دنیا متوجہ ہو گی ورنہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس جائیں گے ۔
قبائلی اضلاع کے عوام کو اجازت دے دیں وہ اس وقت 9 لاکھ بھارتی افواج کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں ہزاروں قبائلی گزشتہ روز مظفر آباد میں اس کا برملا اظہار کر چکے ہیں عالمی امن فوج کو مقبوضہ کشمیر بھجوایا جائے ایل او سی پار کا اعلان کیاجائے کروڑوں لوگ پیطھے کھڑے ہونگے خواہش تھی کہ وزیراعظم پاکستان مسلم لیگ پیپلزپارٹی جماعت اسلامی سمیت ساری سیاسی قیادت کے ساتھ مظفرآباد میں یکجہتی کجا اظہار کرتے مگر وہ سب کو ایک سٹیج پرکھڑانہ کرسکے ۔ پاکستان سعودی عرب اور ایران میں چپقلش ختم کروانے کے لیے کردار ادا کرے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کی طرف سے کشمیریوں کو مضبوط پیغام دینا چاہتا ہوں بھارت نے مسئلہ کشمیر کے جواز کے طور پر بلوچستان کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش کی مگر سارے بلوچستان نے ہر موقع پر بھی اور اس چھ ستمبر کو بھی ثابت کر دیا کہ ان سے بڑا محب وطن کوئی نہیں ہے۔ بلوچستان کے ہر قصبے ہر گاؤں میں کشمیر ریلیاں نکلیں۔ استحکام پاکستان کی ضرورت ہے بلوچستان کا نمائندہ وفد اپنے اخراجات پر نیویارک جا چکا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ پارلیمانی کوشوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے اگر پاکستان وکیل ہے تو وکیل مدعی کے پیچھے نہیں بلکہ آگے کھڑا ہوتا ہے۔ ہمیں غاصبوں کو للکارنا ہو گا۔ کشمیر پر قبضے کے بعد بھارت نے اسے اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ نغموں، نظموں اور جذباتی تقریروں اور قراردادوں سے کشمیریوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ زمینی حقائق کی طرف جائیں غاصب اور ظالم کے خلاف عملی اقدام کریں۔ اگر یہ ہمت نہیں ہے تو ٹی وی لگا کر ڈرامے دیکھیں۔ کرکٹ اور فٹبال کے میچ دیکھیں۔
تالیاں بجانے کے بجائے جہاد افغانستان کی طرح عملی مدد کریں۔ خودمختاری اور آزادی کا تحفظ اس طرح نہیں کیا جاتا اس کے لئے جہاد کا اعلان ضروری ہے۔ کب تک امریکی ڈالروں کا انتظار کرتے رہیں گے۔ بندوق سے گولی نکلے گی تو کشمیر کی آزادی کا سفر شروع ہو جائے گا۔
جب تک مقبوضہ کشمیر میں گٹر بھارتی فوجیوں کی نعشوں سے نہیں بھریں گے۔ دنیا توجہ نہیں کرے گی۔ مسلح جدوجہد کے بغیر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ جب تک سڑکوں پر بھارتی فوجوں کے خون سے رنگین نہیں ہوں گی کوئی توجہ نہیں دے گا۔معاون خصوصی اطلاعات ونشریات فردوس عاش اعوان نے کہا کہ سب نے مل کر کشمریوں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے دنیا کو جگانے کی ضرورت ہے۔
کشمیر کے بغیرپاکستان نامکمل ہے۔قومی کاز میں کشمیر کو بنیادی حثیت حاصل ہے حکومت مصروف عمل ہے ۔جوش کے ساتھ ہوش کا دوامن تھامے رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ کازکو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے ۔دنیا بھارت کا موقف مستردکرکے پاکستان کے بیانیہ کے ساتھ کھڑی ہے۔حکومت پاکستان کی ہر سرگرمی سوچ پالیسی میں کشمیر کاز کو فوقیت حاصل ہے دنیا پاکستان کی بات سن رہی ہے وہی ہوگا جو قوم چاہے گی وزیراعظم پاکستان جلد مسئلہ کشمیر پر روڈ میپ اور پلان کا اعلان کریں گے پارلیمینٹ ہماری طاقت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت آخری سانس لے رہا ہے ظلم کی سیاہ رات ختم ہونے والی ہے کشمیری نہیں تھکے ہیں ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا جلد آزادی کو سورج طلوع ہوگا۔تلواراٹھانے بندوق اٹھانے اعلان جہاد اور دیگر بڑے فیصلے بھی یہ قوم کرے گی مگر ہم نے ایک زمہ دارانہ ریاست خود ثابت کیا آئندہ بھی کرنا ہے ۔
آل پارٹیز حریت کانفرنس کے کنوینئر سید عبد اللہ گیلانی نے کہا 80 لاکھ محصور کشمیری اجتماعی قبر کا منظر پیش کر رہے ہیں ہمارے ساتھ کب تک آنکھ مچولی کا کھیل جاتا رہے گا پیچھے نہیں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں پاکستانی قوم کے شکر گزار ہیں ہمیں بار بار محصور کیا گیا ہے ایسا دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے جسے نئی دہلی محسوس کرے سری نگر میں اس کاوش کو محسوس کیا جائے اسی طرح کا پیغام دینے کی ضرورت ہے ۔
او آئی سی اور عالمی برادری سے ہمیں کوئی توقع نہیں ہے بلکہ یہ تو کشمیریوں کے قاتل مودی کو ایوارڈ دے رہے ہیں صرف اور صرف پاکستان اس کی فوج آزاد کشمیر اور عوام سے توقع ہے پاکستان کی طرف سے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم نہ کیا جائے کیونکہ یہ بیل آؤٹ ہے کیونکہ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بھارت اپنی قومی سلامتی کو مقدم رکھے ۔ چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی سید فخر امام نے کہا کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں پارلیمنٹ کو ایک ٹیم کی طرح لیں قیادت وقت پر اہم فیصلے کرتی ہے ماضی میں ہم سے وقت پر فیصلے نہیں ہوئے ۔ بھارت سارک کی ترقی میں رکاوٹ ہے ۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب مودی اور اس کے حواری جنگی جرائم میں جیل میں ہوں گے ۔