
راولپنڈی: پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ایک سال سے زائد عرصہ قبل چیف جسٹس پاکستان نے کہا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری بے گناہ ہے اس کے باوجود میں ان اتھارٹیز کے سامنے پیش ہوا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میں ماضی میں بھی ان کے سوالناموں کے جواب دے چکا ہوں، مئی میں ہونے والی آخری پیشی میں سوالنامہ دیا گیا تھا جس کے بعد نیب کو کوئی اعتراضات نہیں تھے لیکن دسمبر میں اچانک پتہ نہیں کیا ہورہا تھا کہ 20 دسمبر کو نیب کی جانب سے پہلا نوٹس بھیجا گیا ان کا کہنا تھا کہ جب کراچی میں ہم نے اعلان کیا کہ مارچ سے ملک کی معاشی صورتحال، مہنگائی، پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل کے خلاف جدوجہد کا آغاز کریں گے تو فورا بعد ایک اور نوٹس آتاتحریر جاری ہے
جے وی اوپل کیس: نیب نے بلاول بھٹو کو 13 فروری کو طلب کرلیا
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم اداروں اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہیں جب وہ صحیح کرتے ہیں اور جب وہ غلط بھی کرتے ہیں تب بھی ہم ان کا احترام کرتے ہیں اس لیے اپنے اعتراضات کے باوجود میں آج یہاں پیش ہوا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میرے اعتراضات صرف یہ نہیں ہیں کہ چیف جسٹس نے کہا کہ میں بے گناہ ہوں لیکن سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا مراد علی شاہ سے متعلق بھی حکم دیا تھا اور جے آئی ٹی کے وکیل بھی مانتے ہیں کہ ان کی تجزیات غلط تھے ان کا دوبارہ جائزہ لینا پڑے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے جس الزام میں بلایا جارہا تھا یہ جانتے ہیں کہ میں کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں تھا اور اگر ہوتا بھی تو زرداری اور بحریہ ٹاؤن کمپنی کے درمیان جو پرائیویٹ ٹرانزیکشن ہورہی ہے اس میں نیب کا کیا تعلق ہے؟
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اس وقت کسی سرکاری عہدے پر نہیں تھا تو نیب کا کیا تعلق ہے کہ مجھے بلایا جائے اور مجھ سے پوچھا جائے جب میں نے ان سوالوں کے جواب پہلے بھی دیے ہیں، پیش ہوا ہوں سوالناموں کے جواب بھی دیے ہیں۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ میرا موقف کل بھی وہی تھا، آج بھی وہی ہے اور رہے گا کہ میں بے گناہ ہوں چیف جسٹس نے کہا کہ میں بے گناہ ہوں،میرے ایکشنز بھی بتاتے ہیں کہ میں بے گناہ ہوں اور یہ جو سیاسی انتقام اور کردار کشی کی مہم ہے جس سے وہ چاہتے ہیں کہ جمہوری سیاست دانوں کو بدنام کریں اسے ہم کافی دیر سے دیکھ رہے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہماری غلط فہمی تھی ہم نے سوچا تھا کہ نیب والے ایک سال کے بچے پر کیس نہیں بنائیں گے، میں 7 سال کا تھا جب اس کمپنی کا شیئر ہولڈر بنا تھا، ہمیں یہ امید نہیں تھی کہ جب چیف جسٹس نے پورے ملک کے سامنے کہہ دیا تھا تب بھی یہ سیاسی انتقام جاری رہے گا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ انہیں یہ پتہ نہیں کہ دباؤ کے باوجود ہم اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے خاص طور پر اس وقت اس ملک کے غریب عوام پِس رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس پی ٹی آئی ایم ایف کے بجٹ کو نہیں مانتے اس ملک کے عوام نہیں مانتے ہم اس بجٹ کو پھاڑ کر اڑادیں گے آپ نے اس ملک کے عوام ، مزدوروں، کسانوں، چھوٹے دکانداروں، چھوٹے تاجروں کا معاشی قتل کردیا ہے اور پھر ہم سب کو کہتے ہیں کہ قبر میں سکون ملے گا۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا قائد ایوان کا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ معاشی معاملات ہوں، قومی مفاد کے، کشمیر، دہشت گردی، حکومت کے معاملات ہوں قومی اسمبلی میں دونوں ہی موجود نہیں ہوتے جس سے ملک کی سیاست اور جمہوریت پر بہت اثر پڑتا ہے امید ہے کہ اپوزیشن لیڈر جلد اس ملک میں موجود ہوں گے اور اپنا کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مارچ کے مہینے میں چاہے وہ مارچ، سیمینارز یا تحریک کی شکل اختیار کرے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا جو کہ غیرقانونی ہے لیکن یہ حکومت کچھ بھی کرسکتی ہے تو پاکستان پیپلزپارٹی جانتی ہے کہ جدوجہد کیسی ہوتی ہے اور اگر میں گرفتار ہوتا ہوں تو میری آواز آصفہ بھٹو زرداری ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے اپنے بیان میں میری طلبی کے نوٹسز اور حکومت کی جانب سے سیاسی انتقام کی مذمت کی اور ہم سراہتے ہیں کہ وکلا برادری قانون اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہورہی ہے اور سیاسی انتقام کے خلاف اپنی آواز بلند کررہی ہے۔
بلاول بھٹو نیب میں پیش
قبل ازیں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے 3 مرتبہ طلب کیے جانے کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس میں بیان ریکارڈ کروانے کے لیے نیب کےسامنے پیش ہوئے تھے۔
نیب کے مطابق بلاول کے پاس بھٹو زرداری گروپ کی نجی فرم جے وی اوپل-255 کے 25 فیصد شیئرز ہیں، نیب ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو کو زرداری گروپ اور بحریہ ٹاؤن کی جوائنٹ وینچر فرم سے متعلق سوالنامہ دیا گیا تھا۔
بلاول بھٹو کی آمد سے قبل راولپنڈی میں نیب کے پرانے ہیڈکوارٹرز کے باہر پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری سمیت مختلف پارٹی رہنما اور کارکنان موجود تھے۔
دیگر پی پی پی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا تھا کہ ہم نیب نیازی گٹھ جوڑ سے متعلق بات کرتے رہے ہیں اب عدالتیں بھی کررہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 24 دسمبر کو نیب کے سامنے پیش نہیں ہوں گا، بلاول بھٹو
علاوہ ازیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا تھا کہ نیب جس کیس میں سوال کررہی ہے اس میں بلاول بھٹو کو فرریق نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ وہ اسی وقت کسی سرکاری عہدے پر نہیں تھے۔
خیال رہے کہ نیب کی جانب سے بلاول بھٹو کو حالیہ پیشی کا نوٹس 7 فروری کو بھیجا گیا تھا جس میں بلاول بھٹو کو زرداری گروپ کمپنی کا 2008 سے لے کر 2019 تک کا تمام ریکارڈ ساتھ لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
علاوہ ازاں نوٹس میں چیئرمین پیپلزپارٹی سے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی فہرست بھی طلب کی گئی ہے۔
اس سے قبل نیب راولپنڈی نے بلاول بھٹو زرداری کو 24 دسمبر طلب کیا تھا، بلاول کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نوٹس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کو نیب کا نوٹس موصول ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب چیف جسٹس بھری عدالت میں کہہ چکے ہیں کہ بلاول بھٹو بے قصور ہیں تو نیب کا نوٹس بھیجنا انہیں ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔
اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ نیب نے انہیں 24 دسمبر کو طلبی کا نوٹس بھیجا ہے لیکن وہ پیش نہیں ہوں گے اور بعد ازاں وہ اپنے اعلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے نیب میں پیش نہیں ہوئے تھے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم اداروں اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہیں جب وہ صحیح کرتے ہیں اور جب وہ غلط بھی کرتے ہیں تب بھی ہم ان کا احترام کرتے ہیں اس لیے اپنے اعتراضات کے باوجود میں آج یہاں پیش ہوا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میرے اعتراضات صرف یہ نہیں ہیں کہ چیف جسٹس نے کہا کہ میں بے گناہ ہوں لیکن سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا مراد علی شاہ سے متعلق بھی حکم دیا تھا اور جے آئی ٹی کے وکیل بھی مانتے ہیں کہ ان کی تجزیات غلط تھے ان کا دوبارہ جائزہ لینا پڑے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے جس الزام میں بلایا جارہا تھا یہ جانتے ہیں کہ میں کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں تھا اور اگر ہوتا بھی تو زرداری اور بحریہ ٹاؤن کمپنی کے درمیان جو پرائیویٹ ٹرانزیکشن ہورہی ہے اس میں نیب کا کیا تعلق ہے؟
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اس وقت کسی سرکاری عہدے پر نہیں تھا تو نیب کا کیا تعلق ہے کہ مجھے بلایا جائے اور مجھ سے پوچھا جائے جب میں نے ان سوالوں کے جواب پہلے بھی دیے ہیں، پیش ہوا ہوں سوالناموں کے جواب بھی دیے ہیں۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ میرا موقف کل بھی وہی تھا، آج بھی وہی ہے اور رہے گا کہ میں بے گناہ ہوں چیف جسٹس نے کہا کہ میں بے گناہ ہوں،میرے ایکشنز بھی بتاتے ہیں کہ میں بے گناہ ہوں اور یہ جو سیاسی انتقام اور کردار کشی کی مہم ہے جس سے وہ چاہتے ہیں کہ جمہوری سیاست دانوں کو بدنام کریں اسے ہم کافی دیر سے دیکھ رہے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہماری غلط فہمی تھی ہم نے سوچا تھا کہ نیب والے ایک سال کے بچے پر کیس نہیں بنائیں گے، میں 7 سال کا تھا جب اس کمپنی کا شیئر ہولڈر بنا تھا، ہمیں یہ امید نہیں تھی کہ جب چیف جسٹس نے پورے ملک کے سامنے کہہ دیا تھا تب بھی یہ سیاسی انتقام جاری رہے گا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ انہیں یہ پتہ نہیں کہ دباؤ کے باوجود ہم اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے خاص طور پر اس وقت اس ملک کے غریب عوام پِس رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس پی ٹی آئی ایم ایف کے بجٹ کو نہیں مانتے اس ملک کے عوام نہیں مانتے ہم اس بجٹ کو پھاڑ کر اڑادیں گے آپ نے اس ملک کے عوام ، مزدوروں، کسانوں، چھوٹے دکانداروں، چھوٹے تاجروں کا معاشی قتل کردیا ہے اور پھر ہم سب کو کہتے ہیں کہ قبر میں سکون ملے گا۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا قائد ایوان کا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ معاشی معاملات ہوں، قومی مفاد کے، کشمیر، دہشت گردی، حکومت کے معاملات ہوں قومی اسمبلی میں دونوں ہی موجود نہیں ہوتے جس سے ملک کی سیاست اور جمہوریت پر بہت اثر پڑتا ہے امید ہے کہ اپوزیشن لیڈر جلد اس ملک میں موجود ہوں گے اور اپنا کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مارچ کے مہینے میں چاہے وہ مارچ، سیمینارز یا تحریک کی شکل اختیار کرے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا جو کہ غیرقانونی ہے لیکن یہ حکومت کچھ بھی کرسکتی ہے تو پاکستان پیپلزپارٹی جانتی ہے کہ جدوجہد کیسی ہوتی ہے اور اگر میں گرفتار ہوتا ہوں تو میری آواز آصفہ بھٹو زرداری ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے اپنے بیان میں میری طلبی کے نوٹسز اور حکومت کی جانب سے سیاسی انتقام کی مذمت کی اور ہم سراہتے ہیں کہ وکلا برادری قانون اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہورہی ہے اور سیاسی انتقام کے خلاف اپنی آواز بلند کررہی ہے۔