کابل:افغان حکومت نے امریکا اور طالبان کے مابین ممکنہ معاہدے کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکام کو اس حوالے سے لاحق خطرات کے بارے میں مزید معلومات جاننے کی ضرورت ہے. رپورٹ کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد رواں ہفتے کابل میں تھے جس دوران انہوں نے افغان حکام کو معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا جس پر امریکا فوجی انخلا کی صورت میں طالبان کے ساتھ رضامند ہوا ہے.امریکا اور طالبان کے معاہدے سے حکومت میں شامل افغان گروپوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں اس عمل سے علیحدہ رکھا گیا اور اسلامی انتہا پسندوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے خوفزدہ ہیں.
افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صادق صدیقی نے کہا کہ جہاں کابل امن عمل میں پیش رفت کی حمایت کرتا ہے وہیں اس کے منفی اثرات بھی روکنا چاہتا ہے.
سماجی رابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کابل کو تشویش ہے اس لیے ہم اس دستاویز کے حوالے سے وضاحت چاہتے ہیں تا کہ ہم اس کے ممکنہ منفی اثرات سے لاحق خطرات کا تجزیہ کرسکیں. واضح رہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی کی جانب سے پیش کیے گئے ممکنہ معاہدے کے بعد یہ کابل کا پہلا ردِ عمل ہے. یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ اشرف غنی اور ان کی حکومت کو امریک اور طالبان کے مابین مذاکرات سے بالکل علیحدہ رکھا گیا تھا کیوں کہ طالبان افغان حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے صرف امریکا کے ساتھ معاہدے پر زور دیتے ہیں.طالبان معاہدے کے مندرجات کے مطابق پینٹاگون آئندہ برس تک افغانستان میں موجود اپنے 5 فوجی اڈوں سے 13 ہزار فوجی اہلکار واپس بلالے گا جبکہ طالبان سیکورٹی کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں گے.
عسکریت پسندوں نے کہا تھا کہ وہ القاعدہ کو چھوڑ دیں گے ، داعش سے لڑیں گے اور عسکریت پسندوں کو افغانستان کی زمین استعمال کرنے سے روکیں گے.









































