
امریکہ میں تھیرانوس کمپنی کی بانی ایلزبتھ ہومز، جنھیں ‘دنیا کی سب سے کم عمر خود ساختہ خاتون ارب پتی’ قرار دیا گیا تھا، سرمایہ کاروں کے ساتھ فراڈ کرنے کا جرم ثابت ہونے پر 11 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔امریکہ میں تھیرانوس کمپنی کی بانی ایلزبتھ ہومز، جنھیں ’دنیا کی سب سے کم عمر خود ساختہ خاتون ارب پتی‘ قرار دیا گیا تھا، کو سرمایہ کاروں کے ساتھ فراڈ کرنے کا جرم ثابت ہونے پر 11 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی سے ڈراپ آؤٹ ہونے والی ہومز نے ایک کمپنی قائم کی تھی، جس کی مالیت ایک وقت میں نو ارب ڈالر تھی۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ ان کی ایجاد کردہ ٹیکنالوجی خون کے چند قطروں کی مدد سے کینسر اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کا فوری پتہ لگا سکتی ہے۔
38 سالہ ہومز، جن پر تین ماہ کے مقدمے کے بعد رواں سال جنوری میں فراڈ کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا، نے عدالت میں رندھی ہویی آواز میں بتایا کہ وہ ان تمام لوگوں کے لیے درد رکھتی ہیں جو اُن کے فراڈ کی وجہ سے گمراہ ہوئے۔
امید کی جا رہی ہے کہ ہومز، جنھیں کسی زمانے میں ’مستقبل کا سٹیو جابز‘ بھی کہا جاتا تھا، سزا کے خلاف اپیل کریں گی۔
سنہ 2014 میں ایلزبتھ ہومز، جو اس وقت 30 سال کی تھیں، شہرت کی بلندی پر تھیں۔
19 سال کی عمر میں سٹینفورڈ یونیورسٹی سے ڈراپ آؤٹ ہونے والی ہومز نے ایک کمپنی قائم کی جس کی مالیت ان کے دعوے کے بعد راتوں رات بڑھ گئی اور ان کی کمپنی میں ہینری کسنجر سے لے کر روپرٹ مرڈوک جیسے بڑے لوگوں نے سرمایہ کاری کی تھی۔
لیکن 2015 تک اس کمپنی کا پول کھلنا شروع ہوا اور ایک سال کے اندر اندر ہومز کو بے نقاب کر دیا گیا۔ انھوں نے جس ٹیکنالوجی کے دعوے کیے تھے وہ بالکل کسی کام کی نہیں تھی اور 2018 تک ان کی قائم کردہ کمپنی ختم ہو چکی تھی۔
امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں مقدمے کے دوران استغاثہ کی جانب سے بتایا گیا کہ ہومز نے جانتے بوجھتے ہوئے ڈاکٹرز اور مریضوں کو اپنی ایڈیسن مشین کے بارے میں دھوکہ دیا۔
انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ ہومز نے سرمایہ کاروں کے سامنے اپنی کمپنی کی صلاحیتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
عدالت کی جیوری نے ان کے خلاف فراڈ کے چار الزامات کو درست قرار سمجھا جن میں 20 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ تاہم ان کے خلاف چار دیگر الزامات پر ان کو بری کر دیا گیا۔
ہومز کو مجموعی طور پر 11 الزامات کا سامنا تھا اور وہ عوام کو دھوکہ دینے سے متعلق چار الزامات میں قصوروار نہیں پائی گئیں۔’ناکامی معمول کی چیز ہے لیکن فراڈ ٹھیک نہیں‘
جمعے کے دن مقدمہ سننے والے جج ایڈورڈ ڈویلا کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہومز نے روتے ہوئے سرمایہ کاروں اور مریضوں سے معافی مانگی۔
انھوں نے کہا کہ ’میں اپنی ناکامی کی وجہ سے بہت شرمندہ ہوں۔ میرے دل میں ان تمام لوگوں کے لیے بہت درد ہے جو میری ناکامی کی وجہ سے مشکل سے گزرے۔‘
جج نے ہومز سے کہا کہ ’ناکامی معمول کی چیز ہے لیکن فراڈ ٹھیک نہیں۔‘
عدالتی فیصلے کے تحت ہومز کو اپنی قید کی سزا کا آغاز 27 اپریل سے کرنا ہو گا۔
ہومز اور ان کے سابق کاروباری شریک اور ساتھی رمیش بلوانی کے خلاف 2018 میں فرد جرم عائد ہوئی تھی۔ ان پر وائر فراڈ کرنے کا الزام تھا۔ بلوانی کے خلاف الگ مقدمہ چلا جس میں ان کو فراڈ کے الزام میں قصور وار قرار دیا گیا۔ ان کی سزا کا فیصلہ اگلے ماہ ہو گا۔
عدالت میں مقدمے کے دوران استغاثہ کی جانب سے درخواست کی گئی کہ ہومز کو15 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کو 800 ملین ڈالر واپس کرنے کا حکم دیا جائے جن میں سابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس بھی شامل ہیں جنھوں نے عدالت میں ان کے خلاف گواہی بھی دی۔ ہومز کی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں سافٹ ویئر دنیا کا بڑا نام لیری الیسن بھی شامل ہے۔
تاہم ہومز کا دفاع کرنے والے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ ان کی نیت غلط نہیں تھی اور وہ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ انھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ہومز کو صرف 18 ماہ کے لیے گھر میں نظر بندی کی سزا سنائی جائے۔
جمعے کو جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہومز نے سرمایہ کاروں کو 121 ملین ڈالر کا نقصان پہنچایا جن میں امریکہ میں وال مارٹ کا مالک خاندان اور روپرٹ مرڈوک بھی شامل ہیں۔ عدالت آئندہ تاریخ پر اس رقم کا تعین کرے گی جو ہومز کو واپس ادا کرنا ہو گی۔
دوسری جانب ہومز کے دوستوں، خاندان اور تھیرانوس کمپنی کے سابقہ ملازمین کی جانب سے جج کو ایک درخواست بھیجی گئی جس میں رحم کی اپیل کی گئی۔
انھوں نے لکھا کہ ہومز ایک ماں ہیں جن کا بیٹا جولائی 2021 میں پیدا ہوا اور اس وقت بھی وہ حاملہ ہیں۔ہومز اس وقت حاملہ ہیں اور اُن کے وکلا کی کوشش ہو گی کہ ان کے دوسرے بچے کی پیدائش تک ان کو جیل نہ جانے دیا جائے۔
ان کے پارٹنر بلی ایونز نے جج سے کہا کہ ’وہ ایک ایسے مستقبل سے خوفزدہ ہیں جس میں ان کا بیٹا ایک ایسے ماحول میں پرورش پائے گا جہاں اس کی ماں محافظوں کے سائے تلے جیل میں شیشے کی دوسری جانب بیٹھی ہو گی۔‘
تاہم ایلین لیپیرا، جو سیلیکون ویلی میں بطور سیکریٹری کام کرتی ہیں اور تھیرانوس کے فراڈ میں ان کی خطیر رقم ڈوب گئی تھی، نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ہومز کو ہونے والی سزا سے خوش ہوئی ہیں۔
’میرا خیال ہے کہ یہ منصفانہ فیصلہ ہے اگر آپ کیس کے حقائق کو دیکھیں۔ وہ جانتی تھی کہ یہ فراڈ ہے اور اس نے جانتے بوجھتے ہوئے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں۔‘
ہومز کے عروج و زوال داستانایک کتاب، ایچ بی او کی ڈاکیومنٹری اور آنے والی ٹی وی سیریز اور فلم کا موضوع ہونے کے باوجود، یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ ہومز نے ایسی ٹیکنالوجی پر جوا کیوں کھیلا جس کے بارے میں وہ جانتی تھیں کہ وہ کام نہیں کرے گی۔
جو لوگ انھیں جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کی پرورش واشنگٹن ڈی سی میں ایک کھاتے پیتے گھرانے میں ہوئی اور وہ ایک تمیز دار لیکن دوسروں سے دور رہنے والی لڑکی تھیں۔
81 سالہ موجد اور تاجر رچرڈ فوئز کہتے ہیں کہ شاید ہومز پر کامیاب ہونے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہو گا۔ ان کا خاندان کئی سال تک ہومز کے گھر کے قریب رہتا تھا لیکن جب تھیرانوس نے 2011 میں ایک پیٹنٹ کے تنازع پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا تو وہ یہ گھر چھوڑ گئے۔ (بعد میں یہ مقدمہ ختم کر دیا گیا)۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ ہومز کے والدین نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ کیپٹل ہل پر بیوروکریٹس کے طور پر گزارا تھا لیکن ’وہ سٹیٹس میں بہت دلچسپی رکھتے تھے‘ اور ’کنکشنز کے لیے رہتے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ہومز کے والد کے پر دادا نے فلیشمینز خمیر کی بنیاد رکھی تھی جس نے امریکہ کی روٹی کی صنعت کو بدل کر رکھ دیا تھا اور خاندان اپنے نسب کے متعلق بہت سوچتا تھا۔
جب ایلزبتھ نو سال کی تھیں تو انھوں نے اپنے والد کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ’چاہتی ہیں کہ وہ زندگی میں کوئی نئی چیز دریافت کریں، کوئی ایسی چیز جو انسانیت سمجھتی ہو کہ ممکن نہیں ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
اربوں ڈالر مالیت کی کمپنی بنانے والے نوجوان کا ڈرامائی زوال جس نے کرپٹو دنیا کو ہلا کر رکھ دیا
’ڈالریا‘ گاؤں کے باپ بیٹے نے کرپٹو کرنسی اور آئی فون کے نام پر لوگوں سے کروڑوں کیسے لوٹے؟
’پگ بچرنگ‘ کا آن لائن فراڈ جہاں جعلساز سرمائے کے ساتھ لوگوں کے جذبات سے بھی کھلواڑ کرتے ہیں‘
Reuters
جب وہ سنہ 2002 میں کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سٹینفورڈ یونیورسٹی گئیں تو انھوں نے ایک ایسے ’پیچ‘ کے بارے میں تجویز کیا جسے جب کوئی لگائے گا تو وہ اسے پہننے والے کی انفیکشن سکین کر سکتا ہو گا اور جب بھی ضرورت پڑے اس سے اینٹی بائیوٹکس بھی جاری کر سکتا ہو گا۔
سٹینفورڈ میں کلینیکل فارماکولوجی کی ماہر فیلس گارڈنر کہتی ہیں کہ انھوں نے ہومز کے جلد پر ’پیچ‘ کے آئیڈیا پر بحث کی تھی اور انھیں بتایا تھا کہ یہ کام نہیں کرے گا۔
ڈاکٹر گارڈنر نے بی بی سی کو بتایا کہ بس وہ ان کی طرف دیکھتی رہیں۔
’اور ایسا لگتا تھا کہ انھیں صرف اپنی ذہانت پر کامل یقین تھا۔ انھیں میری مہارت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور یہ پریشان کن تھا۔‘
چند مہینوں بعد ہومز نے 19 سال کی عمر میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کو چھوڑ دیا اور تھیرانوس کمپنی بنائی۔ اس بار ان کا آئیڈیا انگلی سے ایک قطرہ خون لے کر بظاہر ایک انقلابی طریقے سے اس کا ٹیسٹ کرنا تھا۔
ان کے اس پراجیکٹ کے سحر میں آ کر بہت سے مشہور اور با اثر افراد نے بغیر کچھ سوچے سمجھے سرمایہ لگا دیا۔امریکی وزیر خزانہ جارج شولٹز، میرین کور کے جنرل جیمز میٹس (جنھوں نے بعد میں ٹرمپ انتظامیہ میں خدمات سرانجام دیں) اور امریکہ کے امیر ترین خاندان والٹنز کے افراد میں ان کے حمایتیوں میں شامل تھے۔
ان کی حمایت سے ان کے پراجیکٹ کو ساکھ ملی۔
2015 میں انھیں ایک لنچ پر ملنے والے ہارورڈ میڈیکل سکول کے سابق ڈین ڈاکٹر جیفری فلیئر کہتے ہیں کہ ’میں جانتا تھا کہ ان کے پاس ایک شاندار آئیڈیا ہے اور وہ ان تمام سرمایہ کاروں اور سائنسدانوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔‘
ڈاکٹر فلئر مزید کہتے ہیں کہ ’انھیں خود پر مکمل یقین تھا، لیکن جب میں نے ان کی ٹیکنالوجی کے بارے میں ان سے کئی سوالات پوچھے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ انھیں سمجھ ہی نہیں پا رہیں۔ یہ تھوڑا عجیب سا لگا لیکن میں یہ سوچ کر پیچھے نہیں ہٹا کہ یہ کوئی فراڈ ہے۔‘
ڈاکٹر فلئیر نے انھیں اس وقت میڈیکل سکول کے بورڈ آف فیلوز میں شمولیت کی دعوت دی، جس پر انھیں اب افسوس ہے، حالانکہ جب سکینڈل سامنے آیا تو انھیں بورڈ سے ہٹا دیا گیا تھا۔
فراڈ اس وقت سامنے آنے لگا جب 2015 میں ایک وسل بلوئر نے تھیرانوس کی اہم ٹیسٹنگ ڈیوائس ایڈیسن کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔ اخبار دی وال سٹریٹ جرنل نے اپنی لاتعداد رپورٹس میں دعویٰ کیا کہ کمپنی کی طرف سے پیش کیے جانے والے نتائج ناقابل اعتبار ہیں اور یہ کہ کمپنی دوسرے مینوفیکچررز کی تیار کردہ تجارتی طور پر دستیاب مشینوں کو زیادہ تر ٹیسٹنگ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
مقدمات کے ڈھیر لگ گئے، شراکت داروں نے تعلقات منقطع کر دیے اور 2016 میں امریکی ریگولیٹرز نے ایلزبتھ ہومز پر دو سال کے لیے خون کی جانچ کی سروس چلانے پر پابندی عائد کر دی۔
سنہ 2018 میں تھیرانوس ختم کر دی گئی۔
EPA
سیلیکون ویلی کے لیے ایک تنبیہ
سیلیکون ویلی ایک ایسی جگہ ہے جہاں دولت کمائی بھی جا سکتی ہے اور اسے ضائع ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہاں سرمایہ کاروں کے پیسے ڈوب جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
یہ بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں سمجھی جاتی کہ یہاں کمپنیوں کے بانی اپنی ٹیکنالوجی کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کریں۔
تاہم ہومز کے معاملے میں جو بات غیر معمولی ہے، وہ یہ کہ ان کے زوال کا باعث فراڈ کے الزامات تھے جو سچ ثابت ہوئے۔
امریکہ میں وائٹ کالر فراڈ کے مقدمات میں کامیابی سے الزامات کو ثابت کروانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
جب سرمایہ کاروں کا پیسہ ڈوبتا ہے، تو عام طور پر وہ اس نقصان سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں یا پھر ذاتی حیثیت میں ازالے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہومز کو ہونے والی سزا سیلیکون ویلی میں لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کے نتائج اصل زندگی پر بھی ہو سکتے ہیں۔
اور یہ کوئی معمولی سزا نہیں ہے بلکہ 11 سال کا طویل عرصہ ہے جو کافی وقت ہوتا ہے۔