میاں صاحب مجھے یقین ہے کہ میری موت کا سُن کر آپ کو انتہائی صدمہ پہنچا ہوگا۔ آپ نے اپنی قید کے دوران میری صحت یابی اور میری لمبی زندگی کی جتنی دعائیں مانگی۔ میاں صاحب، آپ کی دعاؤں، حوصلے اور تسلی سے میں اتنے دن ہی مزید زندہ رہ سکتی تھی۔ آخر ہر مریض کو دواؤں کے علاوہ دعاؤں اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے اور میرا سب کچھ تو آپ تھے۔ جب آپ ہی میرے پاس نا رہے۔ تو میں زندہ کیسے رہتی ؟
پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں صاحب، مجھے اپنے آخری وقت میں نا تو ڈاکٹروں کی ضرورت تھی اور نا ہی اپنے دو بیٹوں کی۔ مجھے ضرورت تھی تو آپ کی۔ جس کے ساتھ میں نے زندگی کے 48 سال گزارے۔ جس کے ساتھ میں وزیراعظم ہاؤس میں رہی اور جس کی خاطر میں مشرف کے خلاف سڑکوں پر نکلی۔ جس کے ساتھ میں نے دنیا دیکھی۔ پتہ نہیں کہ مرنے کے بعد آپ کو اپنی باؤ جی کا چہرہ دیکھنا بھی نصیب ہوتا ہے کہ نہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ میرا چہرہ مطمئن ہوگا اور میں چاہوں گی کہ آپ اپنی باؤ جی کو حوصلے اور دعاؤں کے ساتھ لحد میں اتاریں۔
میاں صاحب، آپ جب مجھ سے آخری بار ملنے آئے تو آپ نے مجھے آنکھیں کھولنے کا کہا۔ آپ نے اپنے اُس باؤ جی کو آنکھیں کھولنے کا کہا۔ جو کہ آپ کو سُلانے کے بعد سوتی تھی۔ آپ نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے آنکھیں کھولنے کا کہا۔ جو آنکھیں آپ کی راہ تکتے تکتے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ میاں صاحب، آپ تھوڑا انتظار تو کر لیتے۔ میرے بس میں ہوتا تو میں آنکھیں بند ہی کیوں کرتی۔ میں ایسے وقت میں آنکھیں کیوں بند کرتی۔ جب کہ میرے مجازی خدا کو میری ضرورت تھی۔ جو مجھے دیار غیر میں تنہا چھوڑ کر گرفتاری دینے پاکستان جارہا تھا۔









































