اسلام آباد : ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ بھارت کشمیر کے معاملے پر قدم اٹھاکر عالمی سطح پر پھنس گیا، ہماری طرف سے ایک ہی تجویز ہے اور ایک ہی راستہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا فیصلہ کر لیا جائے،
اس میں نہ شک ہمیں ہے ، نہ میڈیا کو ہونا چاہئے اور نہ پاکستان میں کسی کو ہونا چاہئے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں جموں و کشمیر مسئلہ کا حل ہماری خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا ستون ہے ، یہ کشمیریوں کی امنگیں ہیں اور یہی پاکستا نیوں کی خواہش ہے اور یہی ہو گا، پاکستان کبھی دو طرفہ مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹا تاہم بھارت نہیں مانا، بھارتی منافقت عروج پر ہے۔ بھارت جو مرضی کہتا رہے اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نے ہمیشہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تاہم بھارت نے کبھی مثبت جواب نہیں دیا،مقبوضہ کشمیر میںمسلسل 25 ویں روز بھی کرفیو جاری ہے ،
مقبوضہ کشمیر کے ہر کونے میں بھارتی فورسز تعینات ہیں تاکہ احتجاج نہ ہو سکے ۔ حریت کے سینئر رہنمائوں اور ہزاروں کشمیریوں کی مسلسل حراست پر تشویش ہے، طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا آئندہ مرحلہ قطر میں شروع ہو گیا اور امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ حتمی مرحلہ میں ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ اس کے جلد مثبت نتائج نکلیں گے جس سے افغانستان میں امن اور استحکام آئے گا۔دفتر خارجہ میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ 25دن سے مقبوضہ کشمیر کا دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہے۔ بھارتی افواج بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے ، مقبوضہ کشمیر میں کرفیو تاحال برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی منافقت واضح ہے ، بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے پیرس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ معاملہ ہے جبکہ بھارت کے اندر وہ کہہ رہے ہیں یہ اندرونی معاملہ ہے ، پہلے جب یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چل رہا تھا تو وہ کہتے تھے یہ بین الاقوامی معاملہ ہے ،
بھارت کی پوزیشن بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی رہی ہے اور بھارت کے مئوقف میں کوئی تسلسل نہیں ہے اور یہ بات بار بار ایکسپوز ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے پانچ اگست کو جو پوزیشن لی ہے اس کا دفاع کرنا ممکن نہیں اور اس کا احساس بھارت کو ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کبھی بھارت سے دو طرفہ مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹا، ہم بھارت کے ساتھ تواتر سے دو طرفہ بات چیت کی حمایت کرتے رہے ہیں تاہم بھارت نہیں مانا۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے حالیہ اقدام کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان سامنے ہے کہ ہمارے لئے دو طرفہ طور پر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔
بھارت کہتا ہے مقبوضہ کشمیر ہمارا ہے تو پھر آگے کیسے چلیں کوئی راستہ ہمیں تو نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، مسئلہ مقبوضہ کشمیر کا ہے جس پر بھارت کو فیصلہ کرنا ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے ایک قدم اٹھا چکا ہے اور جس سے انہیں اندرونی طور پر مسائل پیش آرہے ہیں اور عالمی سطح پر بھی وہ پھنسے ہوئے ہیں اور وہ کبھی یہاں بھاگ رہے ہیں اور کبھی وہاں بھاگ رہے ہیں جب تک آپ خطہ کی صورتحال کو نہیں دیکھیں گے اور کشمیریوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھیں گے تب تک آپ کیسے آگے چل سکتے ہیں، کشمیریوں کے ساتھ آپ کو پتہ کرنا ہے کہ کشمیری آگے کیا چاہتے ہیں اور قانون کیا ہے اور یو این سکیورٹی کونسل کیا کہتی ہے اس پر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور یواین سکیورٹی کونسل کی قراردادیں جو کہتی ہیں ہم نے کبھی اس پر تبدیلی نہیں لائی، شملہ معاہدہ کا پہلا فکرا بھی یو این چارٹر کو اپ ہولڈ کرتا ہے۔ ہماری پوزیشن اصولوں پر مبنی ہے اور ہماری پوزیشن میں کبھی تبدیلی نہیں ہوئی ، ہم اصولوں پر کھڑے ہیں کہ اس پر فیصلہ ہوگا ، کتنا مشکل ہو، کتنا دشوار ہو کتنی جدوجہد کرنی پڑے، کتنا وقت لگے فیصلہ اس کے تحت ہو گا تاہم بھارت کے مئوقف میں کنفیوژن ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان قطر میں جاری افغان امن عمل میں سہولت کاری کے لئے خلوص نیت سے کوششیں کر رہا ہے ،طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا آئندہ مرحلہ شروع ہو گیا اور امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ حتمی مرحلہ میں ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ اس کے جلد مثبت نتائج نکلیں گے جس سے افغانستان میں امن اور استحکام آئے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں جاری امن کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔









































