’بالاکوٹ حملے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی نے جنرل باجوہ کے منصوبے کی حمایت کی تھی‘
یہ بیانات سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) آصف یٰسین ملک کے حالیہ دعوے کی تردید کرتے ہیں
قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) نے 2019 کے بالاکوٹ حملے کے بعد اُس وقت کے فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ کے ردِعمل کے منصوبے کو نظر انداز یا مسترد نہیں کیا تھا۔
یہ بات کم از کم 2 ایسے شرکا نے پیر کو کہی جو اُس اجلاس میں شریک تھے۔
اجلاس میں موجود ایک وفاقی وزیر نے کہا کہ اُس وقت کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جوابی حکمتِ عملی پر اتفاق کیا گیا اور اسے پاک فضائیہ نے عملی جامہ پہنایا تھا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اُس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات نے زیادہ سخت اختیار تجویز کیا تھا جو قبول نہیں کیا گیا۔
اجلاس میں شریک مسلح افواج کے ایک اہلکار نے اسی طرح کا بیان دیا اور کہا کہ اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان، جنرل حیات کی تجویز سے ’ناخوش‘ تھے، کیونکہ اُن کے خیال میں وہ ’کوئی معنیٰ نہیں رکھتی تھی‘۔
یہ بیانات سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) آصف یٰسین ملک کے حالیہ دعوے کی تردید کرتے ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ بالاکوٹ حملوں کے بعد منعقدہ 2019 کی این ایس سی میٹنگ کے دوران جنرل باجوہ نے ’ضبط‘ کرنے کی تجویز دی تھی، مگر انہیں ایئر چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس نے رد کردیا تھا۔
2019 کی کشیدگی 14 فروری کو پلواما میں ہونے والے ایک خودکش حملے کے بعد پیدا ہوئی تھی، جس میں قابض بھارت میں 40 بھارتی نیم فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
بھارت نے 26 فروری کو بالاکوٹ میں فضائی حملے کے ذریعے جوابی کارروائی کی تھی، یہ 1971 کی جنگ کے بعد پہلی بار تھا کہ بھارتی طیارے گہرائی میں پاکستانی حدود میں داخل ہوئے تھے۔
، انہوں نے بتایا کہ واقعات کا سلسلہ 26 فروری 2019 کی صبح کے ابتدائی پہر ہی شروع ہوا تھا، جب اُس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف (سی جی ایس) جنرل ندیم رضا نے جنرل باجوہ کو تقریباً ڈھائی بجے صبح کال کر کے بالاکوٹ کے نزدیک ایک بھارتی فضائی حملے کی اطلاع دی تھی۔
جنرل باجوہ نے نقصان کا اندازہ طلب کیا اور بعد ازاں سی جی ایس نے انہیں اطلاع دی کہ خاصا نقصان نہیں ہوا ہے۔
ایک مدرسہ جو افغان جنگ کے دوران تعمیر کیا گیا تھا اور مقامی بچوں کی دینی تعلیم کے لیے استعمال ہوتا تھا، مبینہ طور پر ہدف بنایا گیا تھا۔
تاہم میزائل اپنے ہدف سے چوک گیا اور کچھ فاصلے پر جا کر گر پڑا، جس سے کوئی جانی یا ساختی نقصان رپورٹ نہیں ہوا۔
جلد ہی بعد ازاں اُس وقت کے ایئر چیف مارشل مجاہد انور نے صورتحال پر بات کرنے کے لیے جنرل باجوہ سے رابطہ کیا۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ چونکہ کوئی نقصان نہیں ہوا، اس مسئلے کو اس صبح وزیرِ اعظم کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں حل کیا جا سکتا ہے۔
این ایس سی میٹنگ میں شرکت سے پہلے، جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں جنرال باجوہ نے اپنی مرکزی ٹیم بلائی، جہاں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے تجویز دی کہ پاکستان کو اعتدال کے ساتھ جواب دینا چاہیے، تاکہ کشیدگی سے بچا جا سکے۔
ڈی جی ایم او نے تجویز کیا کہ بھارت کے ایک رات کے حملے کے برخلاف، پاکستان کو متعدد اہداف دن کے وقت نشانہ بنانا چاہئیں تاکہ واضح پیغام دیا جا سکے اور طاقت کا توازن بحال ہو۔
یہ جوابی آپریشن، جو بعد میں آپریشن ’سوئفٹ ریٹارٹ‘ کے نام سے جانا گیا، انہی مشاورت کے دوران وضع کیا گیا تھا۔
پھر جنرل باجوہ نے یہ منصوبہ وزیرِ اعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیا، اجلاس کے دوران جنرل زبیر حیات نے تقریباً 40 منٹ تک بولا اور زور دیا کہ وہ جنگ کے وقت وزیرِ اعظم کے بنیادی مشیر ہیں۔
جب جنرل باجوہ نے اُن سے ٹھوس تجویز مانگی تو جنرل حیات نے مکمل فوجی متحرک کاری اور بھارت کے خلاف جنگ کا اعلان تجویز کیا تھا۔
شرکا کے مطابق جنرل باجوہ نے جلد بازی میں کشیدگی بڑھانے کے خلاف خبردار کیا تھا، پھر انہوں نے جی ایچ کیو میں تیار کیے گئے آپریشنل منصوبے کا خاکہ پیش کیا، جسے این ایس سی نے منظور کر لیا۔
انہوں نے یاد دلایا کہ تفصیلی حکمتِ عملی بعد ازاں پی اے ایف چیف کے ساتھ زیرِ بحث آئی، جس نے فضائی کارروائی انجام دی۔
27 فروری کو پاکستانی طیاروں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 6 اہداف پر حملے کیے، جن میں کھلے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا تاکہ اپنی صلاحیت دکھائی جا سکے کہ بغیر کشیدگی بڑھائے بھارتی اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے







































