استنبول میں غزہ کی خودمختاری اور اسرائیلی انخلا پر مسلم ممالک کا اہم اجلاس آج ہوگا
استنبول میں آج مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں غزہ کی خودمختاری، اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد سمیت خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے اقدامات پر غور متوقع ہے۔
ترکیہ سے توقع ہے کہ وہ غزہ کا انتظام اور سیکیورٹی فلسطینیوں کے حوالے کرنے پر زور دے گا، جب کہ وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار آج استنبول میں ہونے والے 8 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کریں گے، یہ اجلاس غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔
عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں غزہ کی جنگ بندی کے اس معاہدے پر بات چیت ہونے کی توقع ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں سے طے ہوا تھا۔
لیکن اس جنگ بندی میں حماس کے ہتھیار چھوڑنے اور اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا جیسے اہم مسائل حل نہیں ہو سکے اور جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی مسلسل بمباری نے اس معاہدے کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
استنبول کے اجلاس میں ترکیہ، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے، یہ وہی ممالک ہیں جن کے نمائندے 23 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر چکے ہیں۔
ترک وزارتِ خارجہ کے ایک ذریعے کے مطابق اجلاس میں توقع ہے کہ ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حکان فیدان یہ بات زور دے کر کہیں گے کہ مسلم ممالک کو جنگ بندی کو مستقل امن میں تبدیل کرنے کے لیے مل کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق حکان فیدان اجلاس میں یہ مؤقف اختیار کریں گے کہ اسرائیل جنگ بندی ختم کرنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے، اس لیے عالمی برادری کو اسرائیلی اشتعال انگیزیوں کے خلاف واضح اور مضبوط مؤقف اپنانا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہنا ہے کہ غزہ میں جانے والی انسانی امداد بہت کم ہے اور اسرائیل نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔
ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق حکان فیدان اس بات پر زور دیں گے کہ فلسطینیوں کو جلد از جلد غزہ کی سیکیورٹی اور انتظام سنبھالنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں، تاکہ ان کے جائز حقوق محفوظ رہیں اور دو ریاستی حل کا مقصد برقرار رکھا جا سکے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ وہ اقوامِ متحدہ کے فورمز پر مشترکہ حکمتِ عملی اور قریبی رابطے برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
غزہ کی جنگ کے دوران ترکی اور اسرائیل کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں، کیونکہ صدر طیب اردوان نے اسرائیلی حملوں پر سخت تنقید کی ہے، ترکیہ نے حماس کو ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کو قبول کرنے پر راضی کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور انقرہ نے غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے مجوزہ انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) میں شامل ہونے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔
تاہم، اسرائیل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ غزہ میں ترک افواج کی موجودگی کو قبول نہیں کرے گا، دیگر ممالک جو اس فورس میں شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں، ان میں اردن، مصر، انڈونیشیا اور پاکستان شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے آئی ایس ایف میں ممکنہ فوجی شمولیت کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر مشاورت جاری ہے اور اس بارے میں باضابطہ اعلان جلد متوقع ہے۔
لیکن جرمنی اور اردن کی طرح اسلام آباد بھی یہ چاہے گا کہ غزہ میں کسی بھی فوجی فورس کی تعیناتی اقوامِ متحدہ کے دائرے میں ہو۔
ہفتے کے روز اردن اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے آئی ایس ایف کے لیے اقوامِ متحدہ کی منظوری حاصل کرنے پر زور دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اس فورس کے لیے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد ہونا ضروری ہے۔
پاکستان کا مؤقف
دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق استنبول اجلاس میں پاکستان اس بات پر زور دے گا کہ جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل کیا جائے، اسرائیلی افواج مقبوضہ فلسطینی علاقوں، خصوصاً غزہ سے مکمل انخلا کریں، فلسطینیوں کو بلا رکاوٹ انسانی امداد فراہم کی جائے اور غزہ کی تعمیر نو کو یقینی بنایا جائے







































