اسرائیلی قید میں مشتاق احمد کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا گیا؟ سابق سینیٹر نے روداد سنا دی
غزہ کے لیے امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے رُکن اور سابق سینیٹر مشتاق احمد نے اسرائیل قید کے دوران گزرے دنوں کی روداد بیان کر دی۔
سابق سینیٹر مشتاق احمد نے گلوبل صمود فلوٹیلا کے سفر، اسرائیلی فورسز کے قبضے، قید میں ظلم و جبر اور غزہ میں جاری بدترین مظالم پر تفصیلی گفتگو کی۔
مشتاق احمد نے بتایا کہ پہلے تو ہمیں یقین ہی نہیں تھا کہ ہم فلسطین پہنچ سکیں گے، تاہم خواہش اور ایک امید ضرور موجود تھی کہ شاہد ہم وہاں پہنچ جائیں، اپنے سفر میں ہم اسرائیل کا دہشت گردانہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب رہے۔
’50 کشتیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے اسرائیل نے پوری نیوی تعینات کی‘
دوران سفر بھی ہمیں معلوم تھا کہ ہم خطرے میں ہیں اور کسی بھی وقت ڈرون حملہ ہو سکتا ہے، فلوٹیلا میں موجود اراکین کو ہدایت دی گئی تھی کہ کوئی بھی کارآمد چیز اسرائیلی فورسز کے حوالے نہیں کی جائیں گی، جس کہ وجہ سے ہم نے اپنے موبائل فونز اور دیگر ضروری اشیا کو پانی میں پھینک دیا تھا۔
سابق سینیٹر کے مطابق ہماری 50 کشتیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اسرائیل نے پوری نیوی تعینات کی ہوئی تھی، پھر بھی ہمیں انٹر سیپٹ کرنے میں انہیں 12 گھنٹے کا وقت لگا، ہماری کشتی کو غزہ سے 40 کلو میٹر دور انٹرسیپٹ کیا گیا۔
جس کے تھوڑی دیر بعد 12 اسرائیلی کمانڈوز ہماری کشتی پر زبردستی آئے، اس دوران 2 بار ان کے کمانڈوز گر بھی گئے، وہ بظاہر ڈرے ہوئے لگ رہے تھے۔
’اسرائیلی کمانڈوز نے پاکستانی جھنڈا اتارا، میں نے وہ اٹھا کر محفوظ کر لیا‘
اسرائیلی کمانڈوز نے ہماری کشتی پر آتے ہی پہلے فلسطین کا جھنڈا پھاڑا، پھر انہوں نے پاکستان کا جھنڈا اتارا، تو میں جھنڈے کو اٹھا کر محفوظ کر لیا، جس کے بعد قابض فورسز ہمیں اشدود کی بندرگاہ پر لے گئے۔
انہوں نے ہمیں وہاں الٹا لٹا دیا تھا، معمولی سی حرکت پر لات مارتے تھے، میرے ساتھ دو فوجی تعینات تھے، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو ؟ تو میں نے انہیں جواب دیا کہ پاکستان سے آیا ہوں، جس پر ان فوجیوں نے پہلے پاکستان کو اور پھر مجھے گالی دی۔
مشتاق احمد نے مزید بتایا کہ جس کے بعد ہمیں اسرائیلی افواج نے اشدود سے بذیعہ قیدی وین کتزیعوت جیل منتقل کیا، اس دوران اچانک سے 20 کے قریب لوگ کچھ کتوں کے ساتھ وہاں آئے، ان کے پاس گنیں بھی تھی، ہمیں لاتیں مار کر سائیڈ پر جمع کیا گیا اور ہمارے اوپر کتوں کو چھوڑا گیا، وہ کتے ہمارے منہ تک آرہے تھے۔
جس کے بعد ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ہمیں باہر لے جایا گیا، مغرب کے وقت نماز پڑھنے کی اجازت مانگی تاہم انہوں نے اجازت نہیں دی، اس کے باوجود ہم نے بغیر وضو اور تیمم کے کھڑے کھڑے نماز ادا کی، اسرائیلی قید کے دوران ایک دن میں نے نیلسن منڈیا کے پوتے کے ساتھ بھی گزارا، جسے میں اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کی جانب سے ان کی رہائی کے لیے کوششوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اسحٰق ڈار نے فون پر رابطہ کیا تھا، دوران قید برطانیہ کا ایک سفارت کار 2 بار ملا تھا، اسے میری رہائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، بلکہ وہ ڈیپورٹیشن ڈاکیومنٹس پر میرے دستخط کروانا چاہتا تھا۔
’اسرائیلی جج کو کہا، بابائے قوم، عوام، ریاست اور میں اسرائیل کو نہیں مانتے‘
اس دوران مجھے دو بار اسرائیلی جج کے سامنے پیش کیا گیا، جج نے مجھے کہا تم 2 بار وارننگ کے باوجود یہاں داخل ہوئے، جس پر میں نے جج کو کہا کہ میرے بابائے قوم، عوام، ریاست اور میں اسرائیل کو نہیں مانتے، لہذا میں اس پر سائن نہیں کر سکتا۔
مجھے برطانوی ڈپلومیٹ نےکہا کہ یہ آپ کو آپ کے جرائم کی نئی چارج شیٹ دیں گے، آپ کی ہڈیاں اس جیل میں گل جائیں گی، 70 فیصد لوگوں نے ملک بدری کے کاغذات پر سائن کر دیے ہیں، جس پر میں نے اس سے کہا کہ ان لوگوں کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں، میں اس ناجائز ریاست کو نہیں مانتا۔
سابق سینیٹر نے مزید کہا کہ میری ہڈیاں گل جائیں، گوشت کو کیڑے کھائیں لیکن میں کسی صورت اس پر سائن نہیں کر سکتا، دستخط کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل ایک ملک ہے، جس کو میں تسلیم کرتا ہوں اور جس کے قانون کی میں نے خلاف ورزی کی ہے، جو میں کسی صورت نہیں کروں گا۔
مشاق احمد کے مطابق برطانوی سفارت کار میرے ساتھ 3 گھنٹے ایک پنجرے میں بیٹھا رہا لیکن میں نے اس کی بات کی تسلیم نہیں کی، اس حد تک اسحٰق ڈار کی بات درست ہے۔
سابق سینیٹر نے گلوبل صمود فلوٹیلا کے اراکین کی رہائی کا کریڈٹ یورپی عوام کو دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کے مظاہروں کی وجہ سے اسرائیل ہمیں رہا کرنے پر مجبور ہوا۔
انہوں نے ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بیمار بچی ہے، اسے کوئی نہ کوئی بیماری لاحق رہتی ہے، اس کے باوجود اس نے 20 دن کا سمندر کا مشکل ترین سفر کیا، اسے اسرائیل کا جھنڈا چومنے پر مجبور کیا گیا، جملے کسے گئے، گریٹا کی توہین و تذلیل کی گئی، پورے عالم اسلام کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
مشتاق احمد جماعت اسلامی سے مستعفیٰ
دوران شو انہوں نے جماعت اسلامی سے استعفیٰ دینے کا انکشاف بھی کیا، سابق سینیٹر نے بتایا کہ انہوں نے 19 ستمبر کو دوران سفر ہی جماعت اسلامی سے استعفیٰ دے دیا تھا، تاہم مجھے اس پر کوئی رسپانس نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ میں جماعت اسلامی کی قدر کرتا ہوں، استعفیٰ دینے پر بہت رویا، جماعت کے لوگوں کے ساتھ عزت اور احترام کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔
سابق سینیٹر پاکستان آمد کے بعد خطاب کرتے ہوئے— فوٹو:اسکرین شارٹ
استعفیٰ کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 2 سے 3 سالوں سے کچھ ایسی چیزیں ہوئی ہیں، تنظیم کی اپنی حدود ہوتی ہیں، ہم بعض اوقات انفرادی طور پر بہتر کام کر سکتے ہیں، میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحٰمن میرے لیے قابل احترام ہیں، ضروری نہیں کہ اگر کوئی پارٹی چھوڑے تو لڑائی یا جھگڑے کے ساتھ چھوڑے، اصولوں، دائرہ کار یا پھر پالیسی کی بنیاد پر بعض اوقات ایسی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔
آخر میں مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ اگر غزہ امن منصوبہ کامیاب نہ ہوا تو میں جکارتہ سے مراکش تک عالم اسلام کا گلوبل فلوٹیلا ترتیب دوں گا، جس کے لیے پوری دنیا کے لوگوں کو دعوت دوں گا، تاہم میری درخواست ہے کہ ہمیں کراچی کی بندرگاہ سے جانے کی اجازت دی جائے۔
’غزہ میں شہید ہونے والی خاتون کے ہاں بچہ پیدا ہوا‘
قبل ازیں، اسرائیلی قید سے رہائی کے بعد اسلام آباد آمد پر انہوں نے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ غزہ میں جس طرح سے انسانیت کا قتل عام کیا جارہا ہے، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ ایک آسٹریلوی لیڈی ڈاکٹر نے ایک واقعہ بتا کر عالمی ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کی تھی، جس میں اُس ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے پاس غزہ میں ایک شہید خاتون کی لاش لائی گئی، جن کا سر کٹا ہوا تھا، وہ خاتون حاملہ تھی اور اس ماہ کے پیٹ سے آپریشن کے ذریعے بچہ نکالا گیا۔
مشتاق احمد نے کہا کہ ہماری بیٹیوں کے ساتھ غزہ میں روزانہ ایسے مظالم ہو رہے ہیں، وہاں 25 ہزار بچے معذور ہو گئے، ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں کو زخمی کیا گیا، غزہ میں پورے پورے خاندان شہید اور ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے








































