ٹرمپ انتظامیہ نےانٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے 2 ججز اور 2 پراسیکیوٹرز پر نئی پابندیاں عائد کر دیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے 2 ججوں اور 2 پراسیکیوٹرز پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
خبر رساں ادارے’رائٹرز‘ کے مطابق واشنگٹن نے اسرائیلی رہنماؤں کو نشانہ بنانے اور امریکی اہلکاروں کی تحقیقات کے فیصلے پر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے جنگی ٹربیونل پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک بیان میں عدالت کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ امریکا اور اسرائیل کے خلاف قانونی جنگ کا ہتھیار رہا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ اور محکمہ خارجہ کے مطابق، جن 4 اہلکاروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں فرانس کے نکولس یان گیو، فیجی کی نزہت شمیـم خان، سینیگال کے مامے منڈیائے نیانگ اور کینیڈا کی کمبرلی پروسٹ شامل ہیں۔
یہ تمام اہلکار اسرائیل اور امریکا سے متعلقہ مقدمات میں شامل رہے ہیں۔
مارکو روبیو نے مزید کہا کہ امریکا نے ہمیشہ واضح اور ثابت قدم مؤقف اختیار کیا ہے، آئی سی سی کی سیاسی بنیادوں پر کارروائیاں، طاقت کا غلط استعمال، ہماری قومی خودمختاری کی خلاف ورزی اور غیر قانونی عدالتی تجاوزات ناقابلِ قبول ہیں۔
یہ دوسری مرتبہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اہلکاروں پر پابندیاں عائد کی ہیں، 3 ماہ قبل بھی 4 ججز پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔
ماہرین کے مطابق یہ ایک سنگین اقدام ہے جو عدالت اور پراسیکیوٹر کے دفتر کے کام کو متاثر کرے گا، خاص طور پر بڑے مقدمات جیسے کہ یوکرین پر روسی حملے کے دوران مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات۔
آئی سی سی نے جون میں ان پابندیوں کو ادارے کی آزادی کو نقصان پہنچانے کی کوشش قرار دیا تھا، عدالت اور پراسیکیوٹر کے دفتر نے اس معاملے پر فوری ردعمل نہیں دیا۔
یاد رہے کہ نومبر میں آئی سی سی کے ججوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو، سابق اسرائیلی وزیر دفاع یواف گیلنٹ اور حماس رہنما ابراہیم المصری کے خلاف غزہ جنگ میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
مارچ 2020 میں آئی سی سی کے پراسیکیوٹرز نے افغانستان میں تحقیقات شروع کی تھیں، جس میں امریکی فوجیوں کے ممکنہ جرائم بھی شامل تھے، تاہم 2021 سے امریکا کے کردار کو ثانوی حیثیت دی گئی اور تحقیقات کا زیادہ تر فوکس افغان حکومت اور طالبان کے مبینہ جرائم پر کر دیا گیا۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت 2002 میں قائم کی گئی تھی تاکہ نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم پر عالمی سطح پر مقدمات چلائے جا سکیں۔
عدالت کو یہ اختیار 125 رکن ممالک میں حاصل ہے یا اگر سلامتی کونسل معاملہ اس کے سپرد کرے، تاہم امریکا، چین، روس اور اسرائیل اس کی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتے۔
آئی سی سی اس وقت کئی ہائی پروفائل تحقیقات کر رہی ہے، جن میں اسرائیل-حماس جنگ، یوکرین میں روسی حملے، سوڈان، میانمار، فلپائن اور وینیزویلا شامل ہیں۔
امریکی پابندیوں کے تحت ان اہلکاروں کے امریکا میں موجود کسی بھی اثاثے کو منجمد کر دیا جائے گا اور انہیں امریکی مالیاتی نظام سے نکال دیا جائے گا۔
فرانس کے نکولس یان گیو وہ جج ہیں جنہوں نے اُس پینل کی سربراہی کی تھی جس نے نیتن یاہو کے لیے وارنٹ گرفتار جاری کیے تھے، نزہت شمیـم خان اور مامے منڈیائے نیانگ عدالت کے ڈپٹی پراسیکیوٹر ہیں۔
کینیڈین جج کمبرلی پروسٹ اس اپیل پینل کی رکن تھیں، جس نے مارچ 2020 میں متفقہ طور پر فیصلہ دیا تھا کہ افغانستان میں 2003 کے بعد سے ہونے والے مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں، جن میں امریکی فوجیوں کا کردار بھی شامل تھا۔
نیتن یاہو کے دفتر نے امریکی پابندیوں کا خیر مقدم کیا ہے۔
کینیڈین جج کمبرلی پروسٹ آئی سی سی کی اپیلز چیمبر کی رکن رہ چکی ہیں، جنہوں نے مارچ 2020 میں متفقہ طور پر آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ افغانستان میں 2003 سے ہونے والے مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کر سکیں، جن میں امریکی فوجیوں کے کردار کا جائزہ لینا بھی شامل تھا۔
کینیڈا کی وزارتِ خارجہ اور وزیرِ خارجہ انیتا آنند کے دفتر نے فوری طور پر ان پابندیوں (بشمول کمبرلی پروسٹ کے خلاف) پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ٹرمپ انتظامیہ کی عدالت سے ناراضی ان کے پہلے دورِ حکومت سے جا ملتی ہے، 2020 میں بھی واشنگٹن نے اُس وقت کی پراسیکیوٹر فاتو بنسودا اور ان کے ایک قریبی معاون پر بھی افغانستان سے متعلق عدالت کے کام کی وجہ سے پابندیاں عائد کی تھیں








































