چترال میں 48 گھنٹوں کے دوران 3 خواتین سمیت 4 افراد نے خود کشی کرلی
گاؤں کوشت کی جماعت نہم کی طالبہ اور نوبیاہتا نوجوان کی لاشیں ابھی تک برآمد نہیں ہو سکیں۔
چترال میں گزشتہ 2 دنوں کے دوران 3 خواتین سمیت 4 افراد نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی، 2 واقعات جمعہ کے روز پیش آئے۔
پہلے واقعے میں ایک نو عمر لڑکی نے چیو بازار کے علاقے میں دریا میں چھلانگ لگا دی، بعد ازاں اس کی لاش دریا سے نکالی گئی اور پوسٹ مارٹم کے بعد والدین کے حوالے کر دی گئی۔
چیو بازار میں میڈیکل اسٹور کے مالک چشم دید گواہ، انعام اللہ نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ لڑکی کو ان کی دکان کے سامنے موجود ایک دکان سے منتو (افغانی ناشتہ) خریدتے دیکھا گیا، اس کے بعد وہ پل کے درمیان تک گئی اور بہت سے راہ گیروں کے سامنے دریا میں کود گئی۔
سب ڈویژنل پولیس افسر (سٹی سرکل) سجاد حسین نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ متوفیہ کے والدین اپر چترال کی تحصیل موڑکھو سے ہجرت کر کے چترال ٹاؤن کے سنگور گاؤں منتقل ہوئے تھے۔
پولیس کے مطابق تمام افراد نے دریا میں چھلانگ لگا کر خودکشی کی۔
انہوں نے بتایا کہ لڑکی کی خودکشی کی فوری وجہ معلوم نہیں ہو سکی، تاہم پولیس نے واقعے کی حقیقت جاننے کے لیے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 174 کے تحت تفتیش شروع کر دی ہے۔
دوسرے واقعے میں، اپر چترال کے لاسپور وادی کے گاؤں رمن سے تعلق رکھنے والے ایک نو بیاہتا نوجوان، زار نبی نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
سب ڈویژنل پولیس افسر مستوج شیر راجہ، نے اس واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ متوفی کی شادی تین روز قبل ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ لاش کی تلاش جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مستوج میں ایک اور واقعے میں، نِسور گول کی ایک شادی شدہ خاتون نے دریا میں کود کر اپنی جان لے لی، اس کی لاش بعد میں بازیاب کر لی گئی۔
شیر راجا کے مطابق پولیس نے دونوں واقعات میں وجوہات جاننے کے لیے تفتیش شروع کر دی ہے۔
ایک اور واقعے میں، اپر چترال کے موڑکھو علاقے کے گاؤں کوشت کی جماعت نہم کی ایک طالبہ نے بھی اسی انداز میں خودکشی کی، اس کی لاش ابھی تک برآمد نہیں ہو سکی۔
متوفیہ اسلام آباد کے ایک اسکول میں زیر تعلیم تھی اور گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے والدین کے ساتھ گاؤں آئی ہوئی تھی








































