
پاکستان کی خوراک کی برآمدات سال 12-2011 میں 4 ارب 25 کروڑ ڈالر کے قریب تھی لیکن 7 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اس میں کوئی زیادہ ہوا نہیں ہوا اور یہ 4 ارب 61 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔ 12-2011 کے 7 سال بعد ملک کی خوراک کی برآمدات میں صرف 36 کروڑ ڈالر یا 8.5 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔یہی نہیں بلکہ 18-2017 کے 4 ارب 80 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 19-2018 میں خوراک کی برآمدات میں 4 فیصد کمی ہوئی اور یہ 4 ارب 61 کروڑ ڈالر تک آگئی۔زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ گزشتہ 7 برس میں خوراک کی برآمدات 3 ارب 70 کروڑ ڈالر سے 4 ارب 80 کروڑ ڈالر کے درمیان گھومتی رہی اور ہم 5 ارب ڈالر کے اس تصوراتی ہدف تک کبھی نہیں پہنچ سکے۔خوراک کی برآمدات میں چاول سب سے زیادہ آمدن کا ذریعہ ہے، اگر واپس 12-2011 پر نظرڈالیں تو چاول کی برآمدات کی آمدنی 2 ارب ڈالر کے تصوراتی ہدف تک پہنچ گئی تھی لیکن اس کے بعد سے ہم اس سطح کے قریب ہی ہیں اور کہیں کچھ غلط ہے۔خوراک کی برآمدات کو 6 ارب ڈالر تک پہنچایا اور اسی سطح کو برقرار رکھنا اتنا مشکل نہیں جتنا نامواق ترجیحات اور عملی سوچ کے فقدان نے اسے بنا دیا ہے، اسی طرح چاول کی برآمدی آمدنی کو ڈھائی ارب ڈالر سے 3 ارب ڈالر تک بڑھانا اتنا مشکل نہیں۔تاہم اس کے لیے ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پائیدار تعلقات قائم کرنے اور کچھ بہت ضروری عملی اور جامع اقدامات کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان کام کرنے کے تعلقات خراب ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں اقتصادی فیصلہ سازی مجموعی طور پر دوچار ہے، زراعت اور خوراک کی برآمدات کو کوئی چھوٹ حاصل نہیں ہے جبکہ دوسری طرف ہماری وسائل کا کمی کا شکار معیشت ایک اہم دور سے گزر رہی ہے اور یہ امید ہے کہ مستقبل قریب میں چیزیں ڈرامائی طور پر بہتر ہوجائیں گی۔تاہم ایک امید ضرور ہے کہ بہتر احساس غالب آئے گا اور حکومت زمینی حقائق کے ساتھ اقتصادی فیصلہ سازی کو مرتب کرے گی برآمدات کو بڑھانے کے جو ہوسکے گا وہ کرے گی، جیسا کہ خوراک کی برآمدات ترجیح ہوجائے گی اور اسی شعبے میں پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کا آغاز کیا جائے گا۔خوراک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے پہلی چیز یہ ہے کہ ہم مقامی خوراک کی سیکیورٹی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں، دوسری چیز برآمدی غذائی اشیا کو بڑھانے اور مزید ویلیو ایڈیشن کی طرف بڑھنے سے متعلق ہے جبکہ تیسری چیز عالمی منڈیوں تک ہماری رسائی کو بڑھانے کے بارے میں ہے۔تقریباً 2 فیصد آبادی میں اضافے کی شرح کے ساتھ ہی ہماری مقامی غذائی ضروریات تیزی سے بڑھ رہی ہیں جبکہ قابل کاشت زمین کو بڑھانے میں ناکامی اور مسلسل پانی کی کمی چاول کی پیداوار کی ہماری صلاحیت کو محدود کر رہی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ہر سال چاول کی برآمدات کو ایک مناسب شرح تک چاہتے ہیں تو ہمیں چاول کی فی ہیکٹر پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا، اس کے علاوہ ہمیں تیزی سے برآمد شدہ برانڈڈ چاول اور چاول سے بنی اشیا کی طرف بڑھنے کی بھی ضرورت ہے، دونوں صورت میں بہتری آئے گی لیکن اس کی رفتار سست ہوگی۔دوسری جانب گندم اور چینی کی برآمدات بھی اسی رجحان کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے، جس کو پورا کرنے کے لیے زیادہ غذائی فصلوں کی پیداوار اور خام غذائی برآمدات میں ویلیو ایڈیشن کی ضرورت ہے۔چاول، گندم اور چینی کی زائد مقدار کو برآمد کرکے زیادہ ڈالر کمانا مقامی سطح پر مہنگائی کا بھی باعث بنا ہے اور کبھی کبھار یہ اشیا آبادی کے غریب طبقے کے لیے بہت زیادہ مہنگے ہوجاتی ہیں۔لہٰذا مہنگائی کے پیش نظر مستقبل برآمدی خوراک کی برانڈنگ اور خوراک کی پیداوار میں مزید بہتری کی ضرورت ہوتی ہے۔ادھر پنجاب اور سنھد کے مختلف حصوں میں سبزیوں اور پھلوں کی جدید طریقے سے کاشت کاری کے باوجود ان کی مشترکہ برآمدات کی کمائی 70 کروڑ ڈالر سے کم ہے اور ہم نے 19-2018 میں 7 لاکھ 68 ہزار ٹنز پھل اور تقریباً 10 لاکھ 30 ہزار ٹنز سبزیوں کی برآمدات سے 70 کروڑ ڈالر سے بھی کم کمائے۔