واشنگٹن: سول اور عسکری قیادت کے دو اہم رہنما وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور اپنی بریفنگ میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بہتری کے لیے دونوں ممالک کے کردار کو نمایاں کریں گے۔ پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی آج میڈیا سے گفتگو کریں گے جبکہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی آئندہ روز علیحدہ بریفنگ دیں گے۔سفارتخانے نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اپنی بریفنگ کے دوران کن امور کو نمایاں کریں گے تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی معاشی، سیاسی اور سفارتی امور کو نمایاں کریں گے اور جنرل آصف غفور سیکیورٹی اور دفاعی امور کو نمایاں کریں گے۔ واضح رہے کہ امریکا کے مستقبل کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے نامزدگی کی سماعت میں پاک-امریکا باہمی مفاد میں پاکستان سے فوجی تعلقات پر زور دیا تھا۔ جنرل مارک ملی، جو امریکی آرمی کی سربراہی کر رہے ہیں، نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان سے سیکیورٹی معاونت معطل کردی ہے اور دفاعی مذاکرات روک دیے ہیں مگر ہمیں اپنے باہمی مفاد میں فوجی تعلقات برقرار رکھنے ہوں گے۔17 جولائی کو واشنگٹن میں ہونے والی بحث میں جنوبی ایشیائی امور کے سینیئر تجزیہ کار مارون وین بام کا کہنا تھا کہ امریکا کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی فوجی معاونت معطل کرنے کی مخالفت کی تھی اور تعلقات کی بحالی چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پینٹاگون پاکستانی فوجی حکام کی تربیبت اور تعلیمی کیمپ دوبارہ قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ اس ہی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جماعت الدعوۃ کے صدر حافظ محمد سعید کو 2008 کے ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے اس کی پاکستان میں گرفتاری کو خوش آئند قرار دیا تھا۔حافظ سعید جس کے سر کی 1 کروڑ ڈالر کی انعامی رقم ہے، کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے کیس میں گرفتار کرکے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ امریکی صدر کا ٹویٹ ان کی وزیر اعظم عمران خان سے وائٹ ہاؤس میں 22 جولائی کو طے شدہ ملاقات سے چند روز قبل ہی سامنے آئی جس کے لیے دونوں جانب سے مثبت ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں امریکا نے علیحدگی پسند گروہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو عالمی دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ امریکی میڈیا نے نشاندہی کی کہ پاکستان نے اس کے بدلے میں حافظ سعید کو گرفتار کیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے حافظ سعید کی گرفتاری کو وزیر اعظم عمران خان کے امریکا کے دورے سے قبل اہم قدم قرار دیا۔ حافظ سعید کی گرفتاری پر رائے دیتے ہوئے واشنگٹن میں سفارتی مبصرین کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بلیک لسٹ سے بچنے میں بھی مدد ملے گی۔ ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کو اکتوبر کے مہینے تک اپنی سرزمین سے تمام دہشت گرد تنظیموں کو نکالنا ہوگا اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنا ہوگا۔ واشنگٹن کے سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران امریکا سے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے تعاون طلب کرسکتے ہیں اور شاید اس ہی لیے اسلام آباد نے حافظ سعید اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کرنے والے دیگر دجنوں مشتبہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ اسلام آباد صرف دہشت گردی، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خاتمے کے لیے اقدامات کے ساتھ ساتھ امریکا کی افغانستان میں 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے بھی تعاون کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات میں افغانستان امریکی ایجنڈے کی ترجیحات میں سے ہوسکتا ہے۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ اسلام آباد افغانستان میں اقتدار کی پرامن طریقے سے منتقلی میں تعاون کرے جس سے طالبان جنگجوؤں کے ہاتھوں امریکا کی شکست ظاہر نہ ہوسکے۔








































