
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ملک میں گندم کے موجودہ ذخائر، ممکنہ طلب اور درآمد کے ٹینڈرز سے متعلق جائزہ اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزراء مفتاح اسماعیل، سید نوید قمر، طارق بشیر چیمہ اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی ۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ملک میں حالیہ گندم کی پیداوار کا تخمینہ 26.389 میٹرک ٹن لگایا گیا جبکہ گزشتہ سال کے 1.806میٹرک ٹن ذخائر موجود ہیں، 30.79میٹرک ٹن کی مجموعی قومی طلب کے مقابلے کل ذخائر 28.199میٹرک ٹن ہیں ، طلب اور ذخائر میں فرق کو ختم کرنے کیلئے حکومت نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ذریعے بروقت گندم کی درآمد کا فیصلہ کیا ہے ۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ حکومت کے روس کے ساتھ معاہدے کے تحت 20 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد پر پیش رفت جاری ہے جو حتمی مراحل میں ہے.اسکے علاوہ اجلاس کو گوادر بندرگاہ کے ذریعے گندم کی درآمد پر پیش رفت پر بھی تفصیلی طور پر اگاہ کیا گیا. اس موقع پر وزیرِ اعظم نے گزشتہ پونے چار سالوں میں گندم کے ذخائر کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ ہدایات جاری کیں کہ گندم کی گوادر بندگاہ کے ذریعے درآمد کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کو جلد یقینی بنایا جائے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ گندم کی طلب اور ذخائر کیلئے جامع منصوبہ بندی نہ کرکے 22 کروڑ عوام کے ساتھ نا انصافی کی گئی، افسوسناک بات ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں گزشتہ دورِ حکومت میں غذائی بحران آتے رہے، گندم کی آئندہ فصل تک اجراء کے ساتھ ساتھ ذخیرے کو بھی یقینی بنایا جائے، گندم کی درآمد کے دوران معیار اور مقدار کو یقینی بنانے کیلئے بین الاقوامی کنسلٹنٹ سے مدد لی جائے.
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ گندم کی خریداری میں جس حد تک ممکن ہو قیمت کو کم کروا کر ملک و قوم کا پیسہ بچایا جائے۔