کیرتھر نیشنل پارک میں نایاب جنگلی بلی کی موجودگی کا انکشاف
کیمرہ ٹریپ کی ویڈیو میں 5 اکتوبر کو کیر تھر نیشنل پارک میں ایک نر سیاہ گوش دکھایا گیا ہے۔
کراچی کے مغرب میں واقع خشک پہاڑی علاقوں میں، ایک سیاہ گوش ( سیاہ کانوں والی درمیانی جسامت کی جنگلی بلی) خاموشی سے پتھریلی زمین پر حرکت کررہی ہے، اس کے لمبے، سیاہ بالوں والے کان ہر آواز پر ہلتے ہیں، ایک خفیہ کیمرہ اس نایاب لمحے کو قید کر لیتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کی سب سے نایاب جنگلی بلیوں میں سے ایک اب بھی زندہ ہے۔
سیاہ گوش ایک درمیانے سائز کی جنگلی بلی ہے جو افریقہ، مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے خشک علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ نسل اب ناپید ہونے کے قریب ہے۔ ماہرینِ جنگلی حیات خبردار کرتے ہیں کہ مسکن کی تباہی، انسانی مداخلت میں اضافہ اور انتقامی ہلاکتوں نے جنگلی بلی کی اس نسل کو مقامی سطح پر معدومی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
وائلڈ لائف ایکسپرٹ سعید الاسلام نے انادولو ایجنسی کو بتایاکہ؛’ مقامی لوگ یا تو اپنی بھیڑ بکریوں، ہرنوں اور دوسرے چھوٹے جانوروں کی حفاظت کے لیے اسے ماردیتے ہیں، یا پھر چھوٹے مویشیوں پر حملے کے بدلے میں اسے مار کر بدلہ لیتے ہیں۔’
غیر قانونی پالتو جانوروں کی تجارت کے لیے شکار بھی ایک اور خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا، ’ اس سب کے نتیجے میں اب پاکستان میں اس جانور کی تعداد چند سو رہ گئی ہے، ہزار سے بھی کم۔’
سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے کنزرویٹر جاوید مہر کے مطابق سیاہ گوش اب بھی سندھ اور دیگر صوبوں کے کچھ حصوں میں موجود ہے، لیکن سرکاری اعداد و شمار کی کمی کی وجہ سے اس کی اصل آبادی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 100 سے 200 کے درمیان ہے۔
عام طور پر رات کے وقت سرگرم رہنے والا اور انتہائی خفیہ مزاج رکھنے والی سیاہ ایک تنہا گوشت خور ہے جو پرندوں، چوہوں اور چھوٹے ممالیوں کا شکار کرتی ہے۔ یہ اپنی لمبی ٹانگوں، کانوں کے سیاہ بالوں والے گُچھوں اور غیر معمولی شکاری مہارت کے لیے مشہور ہے۔
یہ نسل شمالی افریقہ میں تقریباً ناپید، پاکستان میں انتہائی خطرے سے دوچار اور اردن میں خطرے میں ہے، حالانکہ وسطی اور جنوبی افریقہ کے کچھ حصوں میں اس کی آبادی مستحکم ہے۔
بقا کی نئی امید
انڈس فشنگ کیٹ پروجیکٹ (آئی ایف سی پی ) کے سربراہ ظفیر احمد شیخ کے مطابق، جو پچھلے چار سالوں سے اس خطے میں فعال ایک جنگلی حیات کے تحفظ کا ادارہ ہے، پاکستان میں یہ نسل پنجاب کے صحرائے چولستان، سندھ کے کیر تھر پہاڑی سلسلے اور بلوچستان کے وسطی و جنوبی بلند علاقوں میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں کراچی کے قریب کیر تھر نیشنل پارک کے جنوبی کنارے پر سیاہ گوش کی موجودگی ریکارڈ کی گئی ہے، جو اس نایاب نسل کے ہنوز زندہ ہونے کا نادر ثبوت ہے۔
تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکن زوہیب احمد نے بتایا،’ ہم نے کئی ہفتے اس نایاب جانور کو دیکھنے کی کوشش میں گزارے، جس کے بارے میں ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ یہ اب اس علاقے میں موجود نہیں۔’
انہوں نے انادولو کو بتایا، ’ کئی سالوں میں پہلی بار سیاہ گوش کیمرہ ٹریپ میں ریکارڈ ہوئی ہے۔ یہ اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ سیاہ گوش اب بھی پاکستان میں موجود ہیں۔’
آئی ایف سی پی کی جانب سے ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں ایک بالغ نر سیاہ گوش کو کیر تھر نیشنل پارک کے پہاڑی علاقے میں گھومتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ظفیر احمد شیخ کے مطابق، دو ہفتوں کے دوران اس کیمرے سے حاصل کی گئی تقریباً 400 ویڈیوز میں سے صرف ایک میں نر سیاہ گوش دکھائی دیا۔
اسی علاقے میں ایک اور حالیہ واقعے میں ایک نوجوان سیاہ گوش کو مقامی لوگوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
کمیاب ہونے کی وجوہات
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے عہدیدار جمشید چوہدری کے مطابق، سیاہ گوش اپنی قدرتی رہائش گاہ تیزی سے کھو رہی ہیں۔ زرعی زمینوں کی توسیع، شہری پھیلاؤ اور حد سے زیادہ چرائی نے اس کے لیے خوراک اور پناہ گاہ کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔
انہوں نے بتایا،’ سیاہ گوش کے شکار کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے شکار — جیسے چوہے، پرندے اور رینگنے والے جانور — خود بھی مساکن کی تباہی، چرائی اور شکار کی وجہ سے کم ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے سیاہ گوش کے پاس شکم سیری کے لیے کچھ باقی نہیں رہا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ وہ سڑکیں جو سیاہ گوش کے رہائشی علاقوں سے گزرتی ہیں، ایک اور خطرہ ہیں، کیونکہ یہ بلیاں صبح سویرے اور شام کے وقت زیادہ متحرک ہوتی ہیں، جب ڈرائیوروں کے لیے انہیں دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔
اگرچہ عام نہیں، لیکن جمشید چوہدری کے مطابق سیاہ گوش کا کبھی کبھار اس کی کھال کے لیے یا غیر قانونی جنگلی حیات کے کاروبار کے لیے بھی شکار کیا جاتا ہے، جو پہلے سے کم ہوتی ہوئی آبادی پر مزید دباؤ ڈال رہا ہے۔
سیاہ گوش کو ملک میں محدود قانونی تحفظ حاصل ہے اور اس پر توجہ دینے والے تحفظاتی منصوبے نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے اس کی کم ہوتی تعداد کو تقریباً نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
یہ نسل زیادہ تر مرکزی جنگلی حیات کے تحفظ کے منصوبوں سے باہر رہی ہے، حالانکہ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اور دیگر ادارے چولستان، تھل اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں حیاتیاتی تنوع کے سروے کے دوران کبھی کبھار اس کی موجودگی ریکارڈ کر چکے ہیں۔
یہ سندھ وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت تحفظ شدہ جانور ہے، جو شکار اور غیر قانونی پکڑ دھکڑ پر پابندی عائد کرتا ہے، تاہم قانون پر عملدرآمد اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
ماحولیاتی توازن
ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ جنگلی بلی ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جمشید چوہدری کے مطابق، ’ یہ اپنے شکار کی آبادی کو قابو میں رکھ کر حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام کی صحت برقرار رکھنے میں مددگار ہوتی ہے۔’
مہر نے بھی یہی بات دہرائی کہ سیاہ گوش شکاری اور شکار کے توازن کو برقرار رکھنے میں مددگار ہے۔
ایک شکاری کے طور پر یہ چھوٹے ممالیوں اور چوہوں کی آبادی کو قابو میں رکھتی ہے، جس سے زیادہ چرائی، فصلوں کو نقصان اور بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔
جمشید چوہدری نے کہا،’ سیاہ گوش کا تحفظ نہ صرف ایک خوبصورت اور نایاب شکاری کو بچانے کے مترادف ہے بلکہ ان تمام ماحولیاتی نظاموں کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے بھی ضروری ہے جن کا یہ حصہ ہے








































