ڈالر کی قدر میں کمی، کریک ڈاؤن اور اسٹیٹ بینک کی مداخلت اہم عوامل قرار
ڈالر کی قیمت میں حالیہ کمی کے پسِ منظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ کرنسی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی بڑی سطح پر خریداری نے اہم کردار ادا کیا ہے، جس سے مارکیٹ میں استحکام پیدا ہوا ہے۔
کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں بہتری دیکھنے میں آئی، جس کی بڑی وجہ کرنسی اسمگلنگ کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن کو قرار دیا جا رہا ہے۔
ایکسچینج کمپنیوں نے ڈالر کی قیمت میں کمی رپورٹ کی ہے، جس نے مضبوط معاشی بنیادوں کے باوجود ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کے رجحان کو روک دیا ہے۔
حالانکہ مالی سال 2025 (جو 30 جون کو ختم ہوا) کے دوران ریکارڈ ترسیلات زر، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور 14 ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ ذخائر جیسے مثبت عوامل موجود تھے، اس کے باوجود ڈالر کی قدر بڑھ رہی تھی۔
ڈالر کی قدر میں اضافے کو مارکیٹ میں قلت سے جوڑا جا رہا تھا، لیکن کئی ایکسچینج کمپنیوں اور ان کی تنظیموں نے حقیقی قلت کی تردید کی ہے۔
تاہم انٹربینک ذرائع کا کہنا ہے کہ بینکوں کو ڈالر کی محدود فراہمی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ زیادہ نرخ دے رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بینک سرکاری ریٹ کے مقابلے میں فی ڈالر 2 روپے 5 پیسے زیادہ وصول کر رہے تھے اور دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ رسمی ذرائع سے ترسیلات حاصل کرنے کے لیے زیادہ رقم ادا کر رہے ہیں۔
چند روز قبل، ملک بوستان کی قیادت میں ایکسچینج کمپنیوں کے وفد نے اسلام آباد میں ایک اعلیٰ انٹیلی جنس افسر سے ملاقات کی اور افغانستان و ایران کو بڑے پیمانے پر ڈالر اسمگلنگ پر تحفظات کا اظہار کیا، اس ملاقات کے نتیجے میں ایک مخصوص کریک ڈاؤن شروع کیا گیا، جس نے کرنسی ریٹ پر دباؤ کو کم کیا۔
بینکنگ ذرائع کے مطابق ڈالر کی بلند قیمتوں کی بنیادی وجہ قلت اور سخت ریگولیٹری نگرانی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) انٹربینک مارکیٹ میں سب سے بڑا خریدار بن کر سامنے آیا ہے۔
اندازہ ہے کہ مالی سال 2025 کے دوران اسٹیٹ بینک نے تقریباً 8 ارب ڈالر خریدے، اگرچہ اس کی کوئی باضابطہ رپورٹ جاری نہیں ہوئی، البتہ اسٹیٹ بینک نے عوامی سطح پر مارکیٹ سے ڈالر خریدنے کی تصدیق کی ہے۔
جمعرات کو انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 54 پیسے کمی ہوئی اور اختتام پر ریٹ 284 روپے 41 پیسے رہا، جب کہ اوپن مارکیٹ میں 70 پیسے کی کمی کے ساتھ ڈالر 287 روپے 60 پیسے پر بند ہوا۔
کرنسی ماہرین حالیہ کریک ڈاؤن کو بلیک مارکیٹ کے دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لیے ایک پیشگی اقدام قرار دے رہے ہیں، جیسا کہ 2023 میں ہوا تھا جب ڈالر دبئی سے منسلک نرخوں پر 335 سے 340 روپے میں فروخت ہو رہا تھا۔
مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قلت پر کوئی گھبراہٹ نہیں دیکھی گئی، تاہم قیاس آرائیوں اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا خدشہ موجود ہے۔
اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں کمی
دوسری جانب، اسٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 18 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے میں 6 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کمی کے بعد 14 ارب 45 کروڑ ڈالر رہ گئے۔
ملک کے مجموعی زرمبادلہ ذخائر 19 ارب 91 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، جن میں 5 ارب 46 کروڑ ڈالر کمرشل بینکوں کے پاس موجود ہیں








































