
چینی صدر کا تاریخ کی سب سے بڑی پریڈ میں پیوٹن اورکِم جونگ اُن کیساتھ طاقت کا مظاہرہ
صدر شی جن پنگ نےماﺅ زے تنگ کے طرز کے لباس میں سرخ قالین پر وزیراعظم پاکستان شہبازشریف سمیت 25 سے زائد عالمی رہنماؤں کا خیرمقدم کیا
صدر شی جن پنگ نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ چین کی نشاۃ ثانیہ ’ناقابلِ شکست‘ ہے
صدر شی جن پنگ نےماﺅ زے تنگ کے طرز کے لباس میں سرخ قالین پر وزیراعظم پاکستان شہبازشریف سمیت 25 سے زائد عالمی رہنماؤں کا خیرمقدم کیا
صدر شی جن پنگ نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ چین کی نشاۃ ثانیہ ’ناقابلِ شکست‘ ہے
چینی صدر شی جن پنگ نے بدھ کو ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ کے موقع پر دنیا کو خبردار کیا ہے کہ انسانیت امن اور جنگ کے درمیان ایک فیصلہ کن انتخاب کے دہانے پر کھڑی ہے، اس موقع پر ان کے ساتھ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے کِم جونگ اُن اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بھی موجود تھے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق یہ انتہائی منظم اور علامتی تقریب دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جاپان کی شکست کے 80 برس مکمل ہونے پر منعقد کی گئی تھی، جسے مغربی رہنماؤں نے بڑی حد تک نظر انداز کیا، تاہم پیوٹن اور کم، جو یوکرین جنگ اور کِم کے ایٹمی عزائم کی وجہ سے مغرب میں تنہائی کا شکار ہیں، اعزازی مہمان تھے۔
اس پریڈ کا مقصد چین کی فوجی طاقت اور سفارتی اثرورسوخ کو دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، جبکہ یہ ایسے وقت میں ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پابندیاں اور غیر یقینی پالیسیوں نے چین کے تعلقات کو اتحادیوں اور حریفوں دونوں کے ساتھ کشیدہ کر رکھا ہے۔
صدر شی جن پنگ نے تیانمن اسکوائر میں 50 ہزار سے زائد افراد کے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج انسانیت امن یا جنگ، مکالمہ یا تصادم، باہمی فائدے یا صفر جمعی کھیل کے انتخاب کے سامنے ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ چینی عوام ’تاریخ کے درست رخ پر ڈٹے ہوئے ہیں‘۔
بعدازاں صدر شی جن پنگ نے کھلی گاڑی میں بیٹھ کر فوجی دستوں اور جدید ہتھیاروں کا معائنہ کیا، جن میں ہائپر سونک میزائل، زیرآب ڈرون اور ہتھیاروں سے لیس ’روبوٹ وولف‘ شامل تھے، 70 منٹ طویل اس مظاہرے میں ہیلی کاپٹروں نے بڑے بینرز لہرائے اور لڑاکا طیارے فارمیشن بناکر پرواز کرتے رہے، جبکہ آخر میں 80 ہزار ’امن کے پرندے‘آزاد کیے گئے۔
شی جن پنگ نے ماﺅ زے تنگ کے طرز کے لباس میں سرخ قالین پر 25 سے زائد عالمی رہنماؤں کا خیرمقدم کیا، جن میں انڈونیشیا کے پرابوو سبیانتو بھی شامل تھے جن کی شرکت ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے باوجود غیر متوقع تھی، شی کی اہلیہ پینگ لی یوان نے کئی مہمانوں سے انگریزی میں ’آپ سے مل کر اچھا لگا‘ اور ’چین میں خوش آمدید‘ کے الفاظ کہے۔
ناظرین کے لیے بنائے گئے حصے میں شی جن پنگ ، پیوٹن اور کِم کے درمیان بیٹھے اور پریڈ کے دوران دونوں رہنماؤں سے بار بار گفتگو کرتے رہے۔
اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ ’میری جانب سے ولادیمیر پیوٹن اور کِم جونگ اُن کو گرمجوشی سے سلام کہیے، جب آپ امریکا کے خلاف سازش کر رہے ہیں‘۔ انہوں نے ساتھ ہی دوسری عالمی جنگ میں جاپان سے چین کو آزادی دلانے میں امریکا کے کردار کو بھی اجاگر کیا۔
ٹرمپ نے صحافیوں سے کہا کہ وہ اس پریڈ کو امریکا کے لیے چیلنج نہیں سمجھتے، جاپان کی حکومت کے اعلیٰ ترجمان نے تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ایشیا کی دونوں بڑی معیشتیں ’تعمیراتی تعلقات‘ قائم کر رہی ہیں۔
چین کی جانب سے اپنی سرزمین سمجھا جانے والا مگر جمہوری طور پر چلنے والا تائیوان اپنے شہریوں کو پریڈ میں شرکت نہ کرنے کی ہدایت کرتا رہا، تائیوان کے صدر لائی چنگ-تے نے کہا کہ ’تائیوان امن کو بندوق کی نالی سے نہیں مناتا‘۔
نئے عالمی نظام کا ویژن
صدر شی جن پنگ نے دوسری عالمی جنگ کو چین کی ’عظیم نشاۃ ثانیہ‘ کا موڑ قرار دیا، جس میں جاپانی جارحیت کی ذلت کو ختم کرکے چین ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرا، اسی ہفتے شی نے ایک علاقائی سلامتی اجلاس میں نئے عالمی نظام کا خاکہ بھی پیش کیا اور ’بالادستی اور طاقت کی سیاست‘ کے خلاف اتحاد پر زور دیا، جو بظاہر امریکا کو ہدف بنانے کے مترادف تھا۔
تائیوان میں قائم اٹلانٹک کونسل کے ماہر وین-ٹی سنگ نے کہا کہ ’شی جن پنگ کو یقین ہے کہ اب بازی پلٹ چکی ہے، اب چین ڈرائیونگ سیٹ پر ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی بے یقینی کی سب سے بڑی وجہ چین کی ’ولف وارئیر‘ سفارت کاری نہیں بلکہ ٹرمپ کا یکطرفہ رویہ رہا ہے۔
پریڈ کے بعد عوامی ہال میں ایک شاندار استقبالیہ میں شی جن پنگ نے کہا کہ انسانیت کو ’جنگل کے قانون‘ کی طرف واپس نہیں جانا چاہیے۔
تجزیہ کار یہ دیکھ رہے ہیں کہ آیا صدر شی جن پنگ، صدر پیوٹن اور کِم جونگ اُن اپنے دفاعی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے اشارے دیں گے، خاص طور پر روس اور شمالی کوریا کے درمیان جون 2024 میں دفاعی معاہدے اور بیجنگ اور پیانگ یانگ کے مابین ممکنہ اتحاد کے بعد، جو ایشیا پیسفک میں فوجی توازن کو بدل سکتا ہے۔
روسی خبررساں ایجنسی ’طاس‘ کے مطابق بدھ کو روسی اور شمالی کوریائی رہنماؤں کی چین کے ریاستی گیسٹ ہاؤس میں ملاقات کی تیاریاں جاری تھیں۔
پیوٹن پہلے ہی چین کے ساتھ توانائی کے بڑے معاہدے کر چکے ہیں، جبکہ یہ اجتماع کِم کے لیے اپنے متنازع ایٹمی ہتھیاروں کے لیے غیر علانیہ حمایت حاصل کرنے کا موقع تھا، یہ 66 سال بعد پہلا موقع ہے کہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے چین کی فوجی پریڈ میں شرکت کی ہو۔
کِم اپنی بیٹی جو اے کے ساتھ بیجنگ پہنچے، جنہیں جنوبی کوریائی انٹیلی جنس ان کا ممکنہ جانشین سمجھتی ہے، تاہم وہ پریڈ کے موقع پر ان کے ساتھ نظر نہیں آئیں۔
قابلِ ذکر پیش رفت
گزشتہ دو برسوں میں پیپلز لبریشن آرمی کے درجنوں جنرلز، جن میں سے اکثر شی کے قریب سمجھے جاتے تھے، بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن میں برطرف کیے جا چکے ہیں، بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تجزیہ کار جان زن نے کہا کہ ’یہ پریڈ شی کو موقع دیتی ہے کہ دنیا کی توجہ چین کی فوجی جدت پر مرکوز کرے، جبکہ اس دوران پی ایل اے کی مشکلات مثلاً اعلیٰ افسران کی برطرفیوں کو پس منظر میں دھکیل دے‘۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پریڈ نہ صرف دنیا کو چین کی طاقت دکھانے کے لیے تھی بلکہ اندرونِ ملک عوامی حب الوطنی کو ابھارنے کے لیے بھی تھی۔ صدر شی جن پنگ نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ چین کی نشاۃ ثانیہ ’ناقابلِ شکست‘ ہے۔
ایک سرکاری ملازم نے رائٹرز کو بتایا کہ پورے ملک کے سرکاری ملازمین کو پریڈ دیکھنے اور اپنے تاثرات لکھنے کا پابند بنایا گیا ہے