چینی سائنس دانوں نے اے آئی کا استعمال کرکے زندگی کے ارتقا کے راز جان لیے
چینی سائنس دانوں نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کا استعمال کرتے ہوئے مختلف جانداروں کی جانب سے ایک جیسے ماحولیاتی حالات کے تحت خود بخود ملتے جلتے افعال اختیار کرنے سے متعلق حیاتیاتی مسائل کے راز جان لیے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان‘ (اے پی پی) کے مطابق چین کی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف زولوجی کے سائنس دانوں کی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کے پروٹین لینگویج ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے زندگی کے ارتقا کے اہم راز سے پردہ اٹھایا۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ مختلف جاندار ایک جیسے ماحول میں ڈھلنے کے لیے ایک جیسے افعال کیوں تیار کرتے ہیں، جسے سائنسی زبان میں’کنورجنٹ ایوولوشن‘ کہا جاتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ مختلف انواع کے جاندار آزادانہ طور پر ایک جیسے خصائص پیدا کر لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے ماحول سے مطابقت رکھ سکیں۔
مثال کے طور پر چمگادڑوں اور دانتوں والی ویل مچھلیاں جو ارتقائی طور پر ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں لیکن دونوں نے آزادانہ طور پر ایکو لوکیشن (آواز کے ذریعے ماحول کو سمجھنے کی صلاحیت) تیار کی۔
زو ژینگٹنگ کی قیادت میں تحقیقاتی ٹیم نے ایک نیا کمپیوٹیشنل فریم ورک ACEP تیار کیا جو ایک پری ٹرینڈ پروٹین لینگویج ماڈل پر مبنی ہے۔
یہ ماڈل پروٹین کے امینو ایسڈ ترتیبوں کے پیچھے گہری ساختی اور فعال خصوصیات کو سمجھتا ہے۔
زو ژینگٹنگ نے بتایا کہ مذکورہ تحقیق نہ صرف زندگی کے ارتقاء کے قوانین کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ پیچیدہ حیاتیاتی مسائل حل کرنے میں اے اائی ٹیکنالوجی کی زبردست صلاحیت کو بھی ظاہر کرتی ہے








































