
پہاڑوں سے پتھر گرنے کا خوف، افغان زلزلہ متاثرین کا گھروں کو جانے سے انکار
گاؤں مسعود کے رہائشی 67 سالہ کسان آدم خان نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی پناہ نہیں ہے، ایک خیمہ بھی نہیں ہے
پہاڑوں سے چٹانیں کسی بھی وقت گرنے کے خدشے نے افغانستان کے زلزلہ متاثرین کو اس قدر خوفزدہ کر دیا ہے کہ انہوں نے تباہ شدہ دیہات میں واپس جانے سے انکار کردیا ہے اور بارش سے بچنے کے خیمے نہ ہونے کے باوجود کھیتوں اور دریا کے کناروں پر ڈیرے ڈال دیے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے مشرقی صوبہ کنڑ میں زلزلے اور اس کے بعد آنے والے جھٹکوں سے تباہ ہونے والے گاؤں مسعود کے رہائشی 67 سالہ کسان آدم خان نے کہا کہ ’ہمارے پاس کوئی پناہ نہیں ہے، ایک خیمہ بھی نہیں ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’کل رات بارش ہوئی اور ہمارے پاس چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، ہمارا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ بڑے پتھر کسی بھی وقت گر سکتے ہیں‘۔
امدادی تنظیموں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے خوراک اور سامان پہنچایا لیکن متاثرین کا کہنا ہے کہ یہ مدد ناکافی اور سست روی کا شکار ہے۔
علاقے میں عارضی کیمپ قائم ہیں جہاں خاندان جمع ہیں، شہیدان گاؤں میں 40 سالہ کسان شمس الرحمٰن نے بتایا کہ اس نے اپنے چھ رشتہ دار کھو دیے اور اپنے 9 افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ بھاگ آیا، اب وہ اپنے مختصر سامان کے ساتھ سڑک کے کنارے کھلے آسمان تلے بیٹھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جو خیمے ہمیں دیے گئے ہیں وہ ہمارے بچوں کو بھی نہیں سمو سکتے، پہاڑ سے اترتے ہوئے میرے بیٹے کے پاس جوتے نہیں تھے، اس لیے ہم نے باری باری ایک ہی جوتے پہنے‘۔
کچھ لوگوں کے لیے یہ بے دخلی مستقل صورت اختیار کرتی دکھائی دیتی ہے، دھوپ کی تیز روشنی میں 51 سالہ گل احمد اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کھڑے تھے، ان کے خاندان کی خواتین دیوار کے سائے میں بیٹھی تھیں جبکہ قریب ہی عارضی خیمے دھول میں اڑ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’چاہے زلزلہ نہ بھی ہو، ایک معمولی بارش بھی ہمارے اوپر چٹانیں گرا سکتی ہے، ہم واپس نہیں جائیں گے، حکومت کو ہمیں جگہ فراہم کرنا ہوگی‘۔
بین الاقوامی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ناکافی پناہ، ناقص صفائی اور خوراک کی کمی اس صدمے کو بیماری اور غربت میں بدل دے گی، خصوصاً ایسے ملک میں جو دنیا کے غریب ترین اور سب سے زیادہ زلزلہ خیز ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں، 12 سالہ صادق کو 11 گھنٹے ملبے تلے دبے رہنے کے بعد زندہ نکالا گیا، اس کی دادی اور ایک کزن اسی کے قریب ہلاک ہوگئے۔
اس نے کہا کہ ’میں نے سوچا تھا میں مر جاؤں گا، ایسا لگ رہا تھا جیسے قیامت آ گئی ہو‘، وہ خاموشی سے ایک چارپائی پر بیٹھا تھا جبکہ اس کے کزن اور چچا خاندان کے کیمپ کے اردگرد گھوم رہے تھے۔
خواتین امدادی کارکنان پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ
عالمی ادارۂ صحت نے طالبان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان خواتین امدادی کارکنوں پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں تاکہ وہ بغیر محرم کے سفر کر سکیں اور اُن خواتین کی مدد کر سکیں جو حالیہ زلزلے کے بعد علاج تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
یہ زلزلہ افغانستان کے مشرقی علاقے میں آیا تھا جس میں 2 ہزار 200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔