ٹیلی کام سیکٹر میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیاں، ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ نے ٹیلی کام سیکٹر میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین خلاف ورزیوں کو بے نقاب کر دیا ہے، جس کے بعد ذمہ دار حکام کے خلاف فوری کارروائی اور سخت ریگولیشن کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔
آڈیٹر جنرل (اے جی) کی حالیہ رپورٹ میں ٹیلی کام سیکٹر میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں اور خلاف ورزیوں پر سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا ہے، جن میں سرکاری ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) اور اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کی بدانتظامی بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی جاز نے مالی سال 24-2023 کے دوران صارفین سے 6 ارب 58 کروڑ روپے اضافی وصول کیے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) اور آڈیٹر جنرل کے بار بار مطالبات کے باوجود پی ٹی سی ایل نے اپنے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرانے سے انکار کر دیا۔
یونیورسل سروس فنڈ (یو ایس ایف) اور فریکوئنسی الاٹمنٹ بورڈ جیسے ریگولیٹری اداروں کے آڈٹ پیراز میں بھی متعدد اعتراضات اٹھائے گئے، جہاں پی ٹی سی ایل واجبات کی عدم ادائیگی اور مختلف مالی بے ضابطگیوں کا مرتکب پایا گیا۔
مزید یہ کہ آڈٹ رپورٹ میں ایس سی او (جو گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں کام کرنے والی سرکاری ٹیلی کام کمپنی ہے) اس سے متعلق 3 ارب 54 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔
ان میں 1 ارب 33 کروڑ روپے کی خریداری سے متعلق بے قاعدگیاں اور 2 ارب 21 کروڑ روپے کی زائد ادائیگیوں کے معاملات شامل ہیں، خصوصاً مہنگے داموں آلات کی خریداری اور ضرورت سے زیادہ آپریشنل اخراجات کے حوالے سے۔
رپورٹ میں جاز کی جانب سے زائد چارجنگ کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں کمپنی نے 24-2023 کے دوران صارفین سے منظور شدہ ریٹس سے بڑھ کر 6 ارب 58 کروڑ روپے وصول کیے، آڈٹ نے اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ذمہ داری کا تعین ہو سکے اور اس زیادتی کے ذمہ داروں کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ناکامی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ ٹیلی کام سیکٹر کو مؤثر طریقے سے ریگولیٹ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جاز نے پی ٹی اے کی منظور شدہ حد سے زیادہ ریٹس وصول کیے، جو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کی کئی شقوں کی خلاف ورزی ہے۔
پی ٹی اے نے اپنے دفاع میں مؤقف اپنایا کہ چونکہ سیکٹر ڈیریگولیٹڈ ہے، اس لیے وہ زیادہ تر مقابلے کی نگرانی کرتا ہے اور مارکیٹ پلیئرز کو طے شدہ رہنما اصولوں کے اندر رہتے ہوئے قیمتیں طے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
تاہم، اے جی رپورٹ نے پی ٹی اے کی جانب سے سہ ماہی بنیادوں پر 15 فیصد تک ٹیرف بڑھانے کی کھلی اجازت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ صارفین کے تحفظ کے منافی ہے۔
آخر میں اے جی رپورٹ نے زونگ کے اسپیکٹرم کے غیر قانونی استعمال سے متعلق 53 ارب 54 کروڑ روپے کے غیر حل شدہ کیس کا بھی ذکر کیا، جو تاحال عدالت میں زیر سماعت ہے، یہ معاملہ بھی پی ٹی اے کی سنگین ناکامی کو اجاگر کرتا ہے کہ وہ سیکٹر کے بڑے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
آڈٹ رپورٹ نے زور دیا ہے کہ ان خلاف ورزیوں کے ذمہ دار حکام کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور ٹیلی کام سیکٹر میں مؤثر ریگولیشن کو یقینی بنایا جائے








































