
ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو 202 رنز سے ہراکر 34 سال بعد ون ڈے سیریز جیت لی
تاروبا میں کھیلے گئے میچ میں ویسٹ انڈیز کے شائے ہوپ نے 120، جسٹن گریوز نے 43 رنز بنائے
ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو تیسرا ون ڈے 202 رنز کے بھاری مارجن سے ہرا کر 34 سال بعد ون ڈے سیریز 1-2 سے جیت لی۔
تاروبا میں کھیلے گئے میچ میں ویسٹ انڈیز نے پہلے کھیلتے ہوئے 50 اوورز میں 6 وکٹوں پر 294 رنز اسکور کیے۔ شائے ہوپ نے 120 اور جسٹن گریوز نے 43 رنز بنائے، جواب میں پاکستان کی ٹیم صرف 92 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔
سلمان آغا 30 رنز بناکر نمایاں رہے، پاکستان کے 8 بلے باز ڈبل فیگر میں بھی داخل نہ ہوسکے، ویسٹ انڈیز کے جیڈن سیلز نے 6 وکٹیں لیں۔
جیڈن سیلز کی 6 وکٹوں کی شاندار کارکردگی (جو ون ڈے انٹرنیشنل میں کسی ویسٹ انڈین باؤلر کی دوسری بہترین کارکردگی ہے) اور شائے ہوپ کی ناقابلِ شکست سنچری نے پاکستان کو دونوں اننگز میں بے بس کر دیا۔
ویسٹ انڈیز کو بظاہر ایک مشکل وکٹ پر اسپنر باؤلرز کے خلاف رنز بنانے میں دشواری پیش آئی، اور محمد رضوان نے موقع پا کر اپنے پانچویں باؤلر کے اوورز پورے کرائے۔
لگتا تھا کہ ویسٹ انڈیز نے ایک بڑے اسکور کے بجائے محتاط بیٹنگ کا انتخاب کیا ہے تاکہ وکٹیں محفوظ رہیں، لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 44ویں اوور کے آغاز تک وہ 200 کے ہندسے کو بھی نہیں پہنچ سکے۔
لیکن 44ویں اوور کی پہلی گیند پر ہوپ نے محمد نواز کو لانگ آن کے اوپر سے چھکا رسید کیا، اور اس کے ساتھ ہی 200 رنز مکمل ہوئے، اگلی گیند پر ایک اور چھکے نے اُن کی نیت واضح کر دی، اور پاکستان دیکھتا رہ گیا کہ کس طرح ویسٹ انڈیز نے یکدم تیزی پکڑ لی اور ایک کے بعد ایک کاری وار کرنے لگے۔
رضوان نے فوراً ابرار احمد کو واپس اٹیک پر بلایا، جنہوں نے اپنے پہلے 6 اوورز میں صرف 5 رنز دیے تھے، لیکن ویسٹ انڈیز کے کپتان نے اپنی بیٹنگ کو ایک نئے گیئر میں ڈال دیا اور ابرار کے اوور میں 18 رنز بنا ڈالے۔
دوسری طرف جسٹن گریوز نے بھی حسن علی کو آڑے ہاتھوں لیا، نسیم شاہ نے روسٹن چیز کو آؤٹ کرنے والی ریورس سوئنگ یارکرز آزمانے کی کوشش کی، مگر ہوپ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا، وہ ایک شاندار کور ڈرائیو کے ساتھ اپنی سنچری مکمل کر گئے، اور ویسٹ انڈیز کی تاریخ میں سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے کھلاڑیوں میں تیسرے نمبر پر آ گئے۔
آخری 7 اوورز میں 100 رنز بنے، آخری گیند پر جب انہوں نے حسن علی کو تھرڈ مین کے اوپر سے باؤنڈری ماری تو پاکستان کے کھلاڑی مایوسی کے عالم میں واپس لوٹے۔
شائے ہوپ نے 120 رنز کی شاندار اننگز کھیلی جبکہ جسٹن گریوز نے 43 رنز بنائے۔
پاکستان کی جانب سے نسیم شاہ اور ابرار احمد نے 2، 2 جبکہ صائم ایوب اور محمد نواز نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔
پاکستان کی بیٹنگ کا آغاز ہوا تو پہلے ہی اوور میں صائم ایوب آف اسٹمپ کے باہر گیند پر سلپ میں کیچ دے بیٹھے، عبدﷲ شفیق بھی بغیر کوئی رن بنائے سیلز کی گیند پر مڈ آن پر کیچ آؤٹ ہوئے۔
لیکن تیسری وکٹ دن کی سب سے خاص گیند تھی، رضوان نے ایک ہارڈ لینتھ گیند کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا، مگر گیند ہلکا سا واپس آئی اور آف بیل کو ہلکے سے چھو کر گرا گئی، اسٹمپس کو چھوئے بغیر بیل گرنا ایک نایاب منظر تھا۔
پاکستان کی آخری امید بابر اعظم پر تھی، مگر وہ بھی سنگل ہندسوں میں ایل بی ڈبلیو ہو گئے اور 23 کے اسکور پر 4 وکٹیں گر چکی تھیں۔
سلمان آغا اور حسن نواز کی کوشش صرف ہر اوور میں چند سنگلز چرانے تک محدود رہی، جس سے پہلے سے ہی ناممکن سا ہدف مزید ناقابلِ حصول ہوگیا، کیونکہ مطلوبہ رن ریٹ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔
یہ حقیقت بھی زیادہ معنی نہیں رکھتی تھی کہ پاکستان نے بظاہر بیٹنگ کی گہرائی بڑھانے کے لیے اپنی ٹیم سے مستقل باؤلرز نکال دیے تھے، انہیں معلوم تھا کہ وہ ویسے بھی یہ ہدف حاصل نہیں کر پائیں گے، اور جب موتی اور چیز کی اسپن باؤلنگ نے دونوں کو جلد ہی پویلین بھیج دیا تو ویسٹ انڈیز کو جیت قریب نظر آنے لگی۔
اختتامی وار کرنے کی ذمہ داری انہوں نے سیلز کو دی، جس نے نسیم اور حسن علی کو تیزی سے آؤٹ کیا۔
پھر ابرار نے ایک رن لینے کی کوشش کی جو بالکل ممکن نہیں تھی، چیز نے براہِ راست تھرو سے انہیں آؤٹ کر دیا، اور اس تیزی نے سیلز کو مردوں کی ون ڈے کرکٹ میں ویسٹ انڈین باؤلر کی بہترین باؤلنگ کی کارکردگی والا دوسرا باؤلر بنا دیا۔
نوجوان فاسٹ باؤلر کی شاندار باؤلنگ کے باوجود، پاکستان نے اپنی شکست میں آخری کردار خود ادا کیا