
وفاقی جج نے پیدائشی شہریت کا حق ختم کرنے کے ٹرمپ کے حکم پر عملدرآمد روک دیا
امریکا میں ایک وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیدائشی حق شہریت کو محدود کرنے کی کوشش کو روک دیا ہے جس سے صدر ٹرمپ کی ایک صدی سے زائد عرصے سے آئین میں درج حق کو ختم کرنے کی کوشش کو دھچکا پہنچا ہے۔
گرین بیلٹ میں امریکی ڈسٹرکٹ جج ڈیبورا بورڈ مین نے تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم دو گروپوں اور پانچ حاملہ خواتین کے حق میں فیصلہ دیا جنہوں نے دلیل دی تھی کہ ان کے بچوں کو ان کے والدین کے امیگریشن اسٹیٹس کی بنیاد پر غیر آئینی طور پر امریکی شہریت سے محروم کیے جانے کا خطرہ ہے۔
صدر ٹرمپ کے پیشرو جو بائیڈن کی جانب سے مقرر کردہ جج نے ملک بھر میں ابتدائی حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ٹرمپ کے حکم نامے کو 19 فروری کو ملک بھر میں نافذ العمل ہونے سے روک دیا۔
میری لینڈ کی ایک عدالت میں سماعت کے دوران ڈسٹرکٹ جج ڈیبورا بورڈ مین نے کہا کہ شہریت کے قیمتی حق سے انکار ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گا، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی نظیر پیدائشی شہریت کے حق کا تحفظ کرتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کا حکم’14 ویں ترمیم کی سادہ زبان سے متصادم ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ’ملک کی کسی بھی عدالت نے کبھی بھی صدر کی تشریح کی توثیق نہیں کی ہے، ٹرمپ کے اقدام پر قدغن لگانے والی یہ پہلی عدالت نہیں ہے، ریاست واشنگٹن کے ایک وفاقی جج نے بھی جنوری میں جاری کیے گئے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر 14 دن کا حکم امتناع جاری کردیا تھا۔
ٹرمپ مخالفین کو راحت میسر آگئی
بورڈ مین کا کہنا تھا کہ آج امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والا تقریباً ہر بچہ پیدائش کے وقت امریکی شہری ہوتا ہے، یہ ہمارے ملک کا قانون اور روایت ہے، یہ قانون اور روایت اس معاملے کے حل تک جوں کی توں ہے اور رہے گی۔
بورڈ مین کے اس حکم سے ٹرمپ کی پالیسی کے مخالفین کو سیاٹل سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی جج کی جانب سے 23 جنوری کو عائد کیے گئے 14 روزہ تعطل کے مقابلے میں طویل مدتی راحت ملی ہے۔
اس جج جان کوفینور نے ٹرمپ کے حکم نامے کو ’واضح طور پر غیر آئینی‘ قرار دیا تھا۔ کوفینور جمعرات کو اس بات پر غور کریں گے کہ آیا اسی طرح ایک ابتدائی حکم امتناع جاری کیا جائے جو مقدمہ کے حل تک نافذ العمل رہے گا۔
14 ویں ترمیم کے تحت امریکی آئین میں پیدائشی شہریت کا حق شامل ہے جو امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے کسی بھی شخص کو شہری قرار دیتا ہے۔
ٹرمپ کا حکم اس خیال پر مبنی تھا کہ امریکا میں غیر قانونی طور پر یا ویزا پر موجود کوئی بھی شخص اس ملک کے ’دائرہ اختیار کے تابع‘ نہیں ہے،لہٰذا اسے اس زمرے سے خارج کردیا گیا ہے۔
تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کاسا اور پناہ گزینوں کی وکالت کرنے والے پروجیکٹ کے وکلا کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا حکم امریکی آئین کی 14 ویں ترمیم کی شہریت کی شق میں درج حق کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت امریکا میں پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص امریکی شہری ہے۔
یہ مقدمہ ڈیموکریٹک ریاستوں کے اٹارنی جنرلز، تارکین وطن کے حقوق کے حامیوں اور حاملہ ماؤں کی جانب سے ٹرمپ کے حکم کو چیلنج کرنے والے کم از کم8 مقدمات میں سے ایک ہے۔
انہوں نے 1898 میں امریکی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس میں وانگ کم آرک نامی چین نژاد امریکی شخص کے معاملے میں کہا گیا تھا، جسے اس بنیاد پر امریکا میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا کہ وہ شہری نہیں ہے۔
عدالت نے تصدیق کی کہ امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں بشمول تارکین وطن سے پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہریت دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا