نیویارک کا میئر کون ہوگا؟ ڈرامائی انتخاب سے ایک دن قبل زہران ممدانی کو برتری حاصل
انتخابی مہم کے موضوعات مہنگائی میں کمی، جرائم کی شرح، اور ٹرمپ کی دھمکی سے نمٹنے کے گرد گھوم رہے ہیں
ایک غیر متوقع انتخابی مہم کے بعد نیویارک کے شہری منگل کو ایک نئے میئر کا انتخاب کریں گے، اس انتخابی مہم نے امریکا کے سب سے بڑے شہر میں زیادہ وسیع توجہ حاصل کی ہے، بالخصوص اس وقت جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صفِ اول کے امیدوار زہران ممدانی کو ’کمیونسٹ‘ قرار دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے نمایاں امیدوار زہران ممدانی پیدائشی شہریت یافتہ مسلمان امریکی ہیں اور ریاستی اسمبلی میں کوئنز کی نمائندگی کرتے ہیں، انہیں سابق گورنر اینڈریو کومو پر سبقت حاصل ہو رہی ہے۔
کومو پر جنسی ہراسانی کے الزامات بھی عائد ہیں، وہ اپنی پارٹی کے پرائمری انتخابات میں ممدانی سے شکست کے بعد آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
ریپبلکن پارٹی کے 71 سالہ امیدوار کرٹس سلیوا تیسرے نمبر پر ہیں، وہ ’گارڈین اینجلز‘ نامی رضاکارانہ گروپ کے بانی، معروف ریڈیو نشریاتی شخصیت اور بلیوں سے محبت رکھنے والے شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کوئنی پیاک کے 23 سے 27 اکتوبر کے درمیان کیے گئے تازہ ترین سروے کے مطابق، ممدانی 43 فیصد ووٹ حاصل کر رہے ہیں، جب کہ کومو کو 33 فیصد اور سلیوا کو 14 فیصد ووٹ ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ کا ممدانی پر ’کمیونسٹ‘ ہونے کا الزام
انتخابی مہم کے بنیادی موضوعات زندگی کی بڑھتی ہوئی لاگت، جرائم کی شرح اور اس سوال کے گرد گھوم رہے ہیں کہ ہر امیدوار ٹرمپ سے کس طرح نمٹے گا، جو دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ شہر کے وفاقی فنڈز روک سکتے ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر لنکن مچل نے کہا کہ ممدانی ایک غیر معمولی سیاسی شخصیت ہیں، جو موجودہ دور کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں، یہ وہ لمحہ ہے جب امریکا کے سب سے بڑے شہر میں ٹرمپ مخالف آواز عالمی خبروں میں جگہ پا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صاف الفاظ میں، نیویارک کے ایک مسلم میئر کا امیدوار ہونا بذاتِ خود ایک بڑی خبر ہے۔
34 سالہ ممدانی نے اپنے مخالفین پر اسلام مخالف بیانات دینے کا الزام عائد کیا ہے، اور کہا ہے کہ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں نے اسلاموفوبیا کے اس رجحان کو پھیلایا، جو ہمارے شہر میں جڑیں پکڑ چکا ہے۔
نیویارک سٹی الیکشن بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، ابتدائی ووٹنگ کے پہلے 5 دن (جو 2 نومبر کو ختم ہو رہی ہے) کے دوران 2 لاکھ 75 ہزار 6 ڈیموکریٹس، 46 ہزار 115 ریپبلکنز اور 42 ہزار 383 غیر جماعتی ووٹرز نے ووٹ ڈالے ہیں۔
پارٹی کے اندر نظریاتی تقسیم
ممدانی کے اُبھرنے پر ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں بازو اور مرکز کے مابین اختلاف نمایاں ہوئے ہیں۔
ایک اعتدال پسند سیاستدان و نیویارک کی گورنر کیتھی ہوچل 26 اکتوبر کو ممدانی کی ریلی میں شریک ہوئیں، مگر ان کی تقریر کے دوران شرکا نے ’امیروں پر ٹیکس لگاؤ‘ کے نعرے لگائے۔
گورنر ہوچل، ممدانی کی اس تجویز کی ناقد ہیں جس کے مطابق نیویارک میں ایک ملین ڈالر سے زیادہ آمدنی والے افراد پر 2 فیصد اضافی انکم ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
ممدانی کا عروج
زہران ممدانی کی غیر متوقع مقبولیت نوجوان نیویارکرز کی والہانہ حمایت سے ممکن ہوئی ہے، جن کی مہم کے مطابق تقریباً 90 ہزار افراد نے رضاکارانہ طور پر شرکت کی۔
انہوں نے ’دی ڈیلی شو‘ سے گفتگو میں کہا کہ لوگ ایک دوسرے سے اس شہر کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جس سے ہم سب محبت کرتے ہیں۔
کوئنز کے رہائشی اور مہم کے منتظم 17 سالہ عابد مہدی نے کہا کہ جب میں زہران کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے وہی احساس ہوتا ہے، جو بہت سے امریکیوں کو 2016 اور 2020 میں برنی سینڈرز کے بارے میں ہوتا تھا، زہران ہی میرے برنی سینڈرز ہیں۔
ممدانی نے 26 اکتوبر کو کوئنز میں سینیٹر برنی سینڈرز کے ساتھ ایک مشترکہ ریلی میں شرکت کی تھی۔
عابد مہدی نے مزید کہا کہ میں اس وقت 15 سال کا ہوں، اور 18 سال کی عمر میں ٹیکس ادا کرنا شروع کر دوں گا، تو پھر میں سیاست میں دلچسپی لینے کے لیے 3 سال کیوں انتظار کروں؟
بزرگ ووٹروں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے، جو عام طور پر نوجوانوں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ڈالتے ہیں، ممدانی نے جمعرات کے روز بروکلین کے ایک بزرگوں کے مرکز میں ’پینٹ اینڈ پور‘ تقریب میں شرکت کی۔
ہفتے کے آخر میں ہونے والی طوفانی بارش نے انتخابی مہم میں رکاوٹ ڈالی، مگر تینوں امیدواروں نے ووٹروں کو آخری لمحات میں قائل کرنے کے لیے ٹی وی اسٹوڈیوز کا رخ کیا۔
انتخاب سے قبل، سلیوا ایک قدامت پسند ریپ ویڈیو میں نمودار ہوئے جس میں وہ سوٹ اور اپنی مخصوص سرخ ٹوپی پہنے نظر آئے۔
67 سالہ کومو نے جمعرات کو سیاہ فام اور مسلم ووٹروں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی، وہ موجودہ میئر ایرک ایڈمز کے ہمراہ ہارلم میں مہم چلاتے نظر آئے، ایڈمز پر بدعنوانی کے الزامات ہیں، وہ کومو کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔
ہفتے کے دوران اس وقت ہلچل مچ گئی تھی، جب ایک برطانوی اخبار نے سابق میئر اور ممدانی کے حامی بل ڈی بلاسیو کے ساتھ مبینہ انٹرویو شائع کیا، جس میں انہوں نے ممدانی کے سوشلسٹ اخراجاتی منصوبوں کی پائیداری پر سوال اٹھایا۔
تاہم، بعد میں مضمون کو ہٹا دیا گیا، جب ڈی بلاسیو نے وضاحت کی کہ انہوں نے متعلقہ صحافی سے کوئی بات نہیں کی تھی







































