
نائجیریا: ڈاکوؤں کا مسجد پر حملہ، قریبی دیہات میں متعدد افراد کو زندہ جلا دیا، 50 افراد جاں بحق
شمال مغربی نائجیریا میں مسلح افراد نے رواں ہفتے کے آغاز میں ایک مسجد پر حملہ کر کے کم از کم 30 افراد کو شہید کر دیا، مقامی رہائشی اور ایک قانون ساز کے مطابق پڑوسی دیہات میں مزید 20 افراد کو بھی قتل کر دیا گیا۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق مجرمانہ گروہوں کے ارکان نے منگل (19 اگست) کو کٹسینا ریاست کے ضلع مالوم فاشی کے علاقے اُنگوار مانتاؤ میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا، ابتدائی طور پر ایک تنازع کی نگرانی کرنے والے ادارے نے 13 اموات کی اطلاع دی تھی۔
نمازیوں پر یہ حملہ نمازِ فجر کے وقت کیا گیا، حالانکہ کٹسینا ریاست میں حالیہ امن معاہدوں کی لہر دیکھنے میں آئی تھی جن کا مقصد ڈاکوؤں کے حملوں کو روکنا تھا، تاہم مالوم فاشی ان اضلاع میں شامل نہیں تھا جنہوں نے کوئی صلح کی ہو۔
رہائشی نورا موسیٰ نے اے ایف پی کو بتایا کہ 9 نمازی موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے اور کئی دیگر بعد ازاں دم توڑ گئے، تازہ ترین ہلاکتوں کی تعداد 32 ہے۔
مقامی سیاستدان امینو ابراہیم نے منگل کو کٹسینا کی ریاستی اسمبلی میں بتایا کہ حملہ آوروں نے 30 افراد کو قتل کیا، جب کہ قریبی کئی دیہات پر حملوں کے دوران مزید 20 لوگوں کو زندہ جلا دیا۔
ڈاکو کئی سالوں سے نائجیریا کے شمال مغرب اور وسطی حصوں کی دیہی آبادی کو نشانہ بنا رہے ہیں، دیہات پر چھاپے مارنا، رہائشیوں کو تاوان کے لیے اغوا کرنا اور گھروں کو لوٹ کر آگ لگانا ان کے معمولات میں شامل ہے۔
موسیٰ نے اے ایف پی کو بتایا کہ منگل کا یہ حملہ اس وقت ہوا جب مقامی دیہاتی محافظوں نے ہفتے کے آخر میں ایک ڈاکو گروہ پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ رضاکار محافظ غروب آفتاب سے لے کر صبح تک پہرہ دیتے ہیں، ڈاکوؤں کے خلاف گاؤں اور اس کے اطراف کی نگرانی کرتے ہیں، پہرہ ختم کرنے کے بعد وہ مسجد گئے۔
نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے اور پھر آرام کرنے کے لیے، جیسے ہی وہ نماز پڑھ رہے تھے، ڈاکوؤں نے اچانک مسجد پر حملہ کر دیا، انہوں نے نمازیوں پر فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔
ڈاکوؤں نے قریبی دیگر قصبوں پر بھی حملے کیے اور کئی افراد کو اغوا کر لیا۔
نائجیریا میں ڈاکوؤں کا بحران زمین اور پانی کے حقوق پر چرواہوں اور کسانوں کے درمیان تنازعات سے شروع ہوا تھا، جو اب منظم جرائم میں تبدیل ہو چکا ہے۔
یہ گروہ مویشی چوری، اغوا برائے تاوان اور کسانوں پر ٹیکس عائد کر کے بھاری منافع کما رہے ہیں، خاص طور پر ان غریب دیہی علاقوں میں جہاں حکومت رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہاں تک کہ وہ کمیونٹیز جو ڈاکوؤں سے امن معاہدے کر لیتی ہیں، ان کے لیے یہ سکون عارضی ثابت ہو سکتا ہے اگر حملہ آور یا حکام اس معاہدے پر قائم نہ رہیں۔
ڈاکو ، جو اکثر امن معاہدے کے بعد بھی زیادہ تر ہتھیار اپنے پاس رکھتے ہیں ان صلح ناموں کا فائدہ اٹھا کر اپنے لیے محفوظ ٹھکانے بنا لیتے ہیں، جبکہ دیگر علاقوں میں حملے جاری رکھتے ہیں۔
کڈونا ریاست کے برنن گوری ضلع میں نومبر میں صلح کے بعد سیکیورٹی میں بہتری آئی، لیکن پڑوسی ریاستوں کٹسینا اور نائجر میں ڈاکو حملے بڑھ گئے ہیں۔
قانون ساز ابراہیم نے کہا کہ صورتحال ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے، ہمارے لوگ ان مسلسل حملوں کی وجہ سے اب اپنے دیہات میں نہیں رہ سکتے