
معروف حریت پسند کشمیری رہنما عبدالغنی بھٹ 89 برس کی عمر میں انتقال کرگئے
کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین اور بھارت و پاکستان کے درمیان مذاکرات کے حامی پروفیسر عبدالغنی بھٹ 89 برس کی عمر میں بدھ کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع سوپور میں انتقال کر گئے۔
اہل خانہ کے مطابق وہ کچھ عرصے سے علیل تھے اور اپنے گھر پر وفات پا گئے، سرکاری ذرائع نے بتایا کہ انتظامیہ نے اہل خانہ کو ہدایت دی کہ تدفین بدھ کی رات تک مکمل کر لی جائے، اطلاعات کے مطابق حریت چیئرمین میرواعظ عمر فاروق اور سرینگر سے آنے والے دیگر ساتھیوں کو سوپور جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
پروفیسر عبدالغنی بھٹ کلاسیکی فارسی شعرا کے حوالے دے کر ہر بحران اور اس کے حل کو بیان کرنے کے لیے جانے جاتے تھے، وہ مقبوضہ کشمیر کے چند ایسے رہنماؤں میں شامل تھے جن کا سیاسی سفر مرکزی انتخابی سیاست سے لے کر مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی جدوجہد تک پھیلا ہوا تھا۔
انہوں نے سرکاری ملازمت چھوڑ کر سیاست میں قدم رکھا اور مسلم یونائیٹڈ فرنٹ (ایم یو ایف) کے بانی رہنماؤں میں شامل ہوئے، جس نے 1987 کے انتخابات میں حصہ لیا، بعدازاں وہ 1990 کی دہائی میں حریت کانفرنس کے چیئرمین بنے، جو کم از کم 13 بھارت مخالف جماعتوں کا اتحاد ہے، اور کئی برس تک کشمیری سیاست کی سمت طے کرتے رہے۔
اسلام آباد اور دہلی سے مذاکرات کے حامی
وہ ہمیشہ اس بات کے حامی رہے کہ مسئلہ کشمیر پر دہلی اور اسلام آباد دونوں سے بات ہونی چاہیے، 2004 میں وہ ان چند کشمیری رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے اُس وقت کے بھارتی نائب وزیراعظم اور بی جے پی رہنما ایل کے ایڈوانی سے ملاقات کی اور تصاویر بھی بنوائیں، اس ملاقات کے بعد ان کے اس بیان کہ ’امن عمل کو بتدریج آگے بڑھنا چاہیے، بندوقوں کی جگہ سیاسی بات چیت کو لینا چاہیے‘ پر انہیں تنقید اور تعریف دونوں ملی۔
انہوں نے بارہا پاکستانی اور بھارتی ثالثوں سے رابطے رکھ کر مسئلہ کشمیر پر بامقصد مذاکرات کی کوشش کی۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ناقابل عمل قرار دیا
2017 میں انہیں مسلم کانفرنس کی صدارت سے ہٹا دیا گیا کیونکہ انہوں نے دہلی کے خصوصی نمائندے دنیشور شرما سے ملاقات کی اور مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تھی، اس سے قبل 2012 میں بھی انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے کہا کہ ’اقوام متحدہ کی قراردادیں ناقابلِ عمل ہیں اور وقت آ گیا ہے کہ مین اسٹریم جماعتوں کے ساتھ مل کر کم از کم مشترکہ پروگرام ترتیب دیا جائے‘۔
وہ ان چند رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے بانی مفتی سعید سمیت مرکزی رہنماؤں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے۔
میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ ’میں نے ایک شفیق بزرگ، ایک عزیز دوست اور ساتھی کو کھو دیا ہے، یہ ایک بہت بڑا ذاتی نقصان ہے، کشمیر نے اپنے مخلص اور دوراندیش رہنماؤں میں سے ایک کو کھو دیا‘۔
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ ’میں بے حد افسردہ ہوں، وہ کشمیری تاریخ کے ہنگامہ خیز دور میں اعتدال کی آواز تھے، ایک باوقار اسکالر، استاد اور دانشور جن کا سیاسی رویہ حقیقت پسندانہ تھا‘۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے کہا کہ ’سینئر کشمیری سیاسی رہنما اور استاد پروفیسر عبدالغنی بھٹ کے انتقال کی خبر سن کر رنجیدہ ہوں، ہماری سیاسی سوچیں مختلف تھیں مگر میں ہمیشہ انہیں ایک مہذب شخصیت کے طور پر یاد رکھوں گا، ان میں یہ حوصلہ تھا کہ وہ اس وقت بات چیت کی وکالت کرتے جب بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ تشدد ہی واحد راستہ ہے، اسی لیے انہوں نے اُس وقت کے وزیراعظم واجپائی اور نائب وزیراعظم ایڈوانی سے ملاقات کی، اللہ بھٹ صاحب کو جنت میں جگہ عطا کرے‘