
فیس لیس کسٹمز اسیسمنٹ سسٹم سے صرف 3 ماہ میں 100 ارب روپے کی آمدن کا نقصان
تقریباً 60 فیصد درآمدات اور 85 فیصد برآمدات گرین چینل کے ذریعے کلیئر ہو رہی ہیں
وزیرِاعظم کی جانب سے گزشتہ سال کراچی میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے شروع کیے گئے فیس لیس کسٹمز اسیسمنٹ (ایف سی اے) سسٹم نے صرف 3 ماہ میں تقریباً 100 ارب روپے کے ریونیو کا نقصان کیا ہے۔
یہ انکشاف فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذیلی ادارے پاکستان کسٹمز آڈٹ کی ایک تفصیلی رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس میں 16 دسمبر 2024 سے 15 مارچ 2025 تک کی مدت کا جائزہ لیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 13 ہزار 140 گڈز ڈیکلریشنز (جی ڈیز) کی جانچ پڑتال کے دوران 2 ہزار 530 ڈیکلریشنز میں متعدد تضادات سامنے آئے، جنہوں نے اسیسمنٹ کے معیار پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں، اور ریونیو و کمپلائنس کے خطرات کو نمایاں کیا ہے، یہ رپورٹ 100 فیصد آپریشنز پر محیط نہیں تھی۔
جائزہ لی گئی جی ڈیز میں سے 18 فیصد گرین چینل، 76 فیصد ریڈ چینل اور 6 فیصد یلو چینل سے کلیئر کی گئیں، اس سے سسٹم کی کمزوریاں، افرادی قوت کی نااہلی، انڈر/اوور انوائسنگ اور وسیع پیمانے پر تجارتی بنیادوں پر منی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا۔
کچھ معاملات میں سولر پینلز کے درآمد کنندگان نے 2023 میں شپمنٹس درآمد کیں لیکن کنٹینرز کو ایک سال بعد کلیئر کروایا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں فیس لیس سسٹم کے آغاز کا پیشگی علم تھا۔
آڈٹ میں ایک ہزار 524 ڈیکلریشنز میں 5 ارب روپے کے ڈیوٹی/ٹیکس چوری، 2 ارب 43 کروڑ روپے کے جرمانے کے نقصان اور ایک ہزار 6 ڈیکلریشنز میں 10 ارب 54 کروڑ روپے کی مالیت کے ممنوعہ سامان کی کلیئرنس کا انکشاف ہوا، جو دانشورانہ املاک کے اصولوں کے خلاف تھی۔
مزید یہ کہ ایک ارب روپے یا اس سے زیادہ کے ٹیکس/ڈیوٹی چوری والے ڈیکلریشنز پر خلاف ورزی کے کیس نہ بنانے کی وجہ سے 30 ارب 36 کروڑ 40 لاکھ روپے کے جرمانے کا ممکنہ نقصان ہوا۔
آڈٹ نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ جعلی طریقوں سے سولر پینلز کے کنٹینرز کلیئر کیے گئے، غیر مجاز ٹیکس نمبروں پر فراڈ کیا گیا اور منی لانڈرنگ سے متعلق سنگین خدشات پائے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کم از کم 20 فیصد کے جرمانے (SRO 499(I)/2009 کے تحت) لگائے جاتے تو 53 ارب 54 کروڑ روپے سے زائد وصول کیے جا سکتے تھے، لیکن حقیقت میں صرف 3 ارب 48 کروڑ روپے 308 کیسز میں وصول ہوئے۔
ٹرانزیکشنل آڈٹ
ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پاکستان کسٹمز نے کہا کہ افرادی وسائل اور وقت کی کمی کے باعث زیادہ تر ٹرانزیکشنل آڈٹ پر انحصار کیا گیا، بجائے اس کے کہ اداروں کی سطح پر جانچ کی جاتی۔
مزید یہ کہ آڈٹ کو صرف ان ڈیکلریشنز تک محدود رکھا گیا جن میں ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی شامل تھی۔
سسٹم کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک کروڑ روپے کی ایک پرانی ٹويوٹا لینڈ کروزر کو صرف 17 ہزار 635 روپے کے ویلیوایشن پر کلیئر کر دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ ایک سنگین تجارتی بنیادوں پر منی لانڈرنگ (ٹی بی ایم ایل) کا خطرہ ہے، اتنی کم قیمت ظاہر کر کے درآمد کنندہ مالیاتی نگرانی سے بچنا چاہتا تھا، اور غالباً اصل قیمت غیر رسمی یا غیر قانونی ذرائع جیسے حوالہ/ہنڈی کے ذریعے ادا کی گئی۔
تضادات
آڈٹ میں مختلف تضادات سامنے آئے جن میں ایچ ایس کوڈ کی غلط درجہ بندی، قیمت کی غلط بیانی/ویلیوایشن رولنگز کا اطلاق نہ ہونا، ایس آر او کی خلاف ورزی، ناجائز چھوٹ/استثنیٰ، ریٹیل پرائس پر سیلز ٹیکس کی کم ادائیگی وغیرہ شامل ہیں۔
بعد از کلیئرنس آڈٹ کے دوران یہ فراڈ سامنے آیا کہ بعض درآمد کنندگان پہلے سے اسیس شدہ ڈیکلریشنز منسوخ کرواتے اور دوبارہ جمع کرواتے، جس سے وہ زیادہ ٹیکس و جرمانوں سے بچ جاتے ہیں۔
مزید برآں، درآمد کنندگان نے جان بوجھ کر مبہم تفصیلات لکھیں تاکہ کم قیمت لگائی جا سکے، اس طرح بعد میں ان کی غلط بیانی کو ثابت کرنا محکمہ کے لیے مشکل ہو گیا۔
سولر پینل فراڈ
آڈٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2023 میں 5 جعلی درآمد کنندگان کے 54 سولر پینل کنٹینرز درج کیے گئے، لیکن انہیں دسمبر 2024 سے فروری 2025 کے درمیان 28 ڈیکلریشنز کے ذریعے غیر مجاز این ٹی اینز اور کسٹمز آئی ڈیز پر کلیئر کروا لیا گیا۔
مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کچھ درآمد کنندگان پہلے بھی اسی قسم کے کیسز میں گرفتار ہو چکے تھے، اور خود کو محض 30 ہزار روپے تنخواہ لینے والے ملازمین ظاہر کرتے تھے۔
یہ کیس پہلے سے موجود سولر پینل منی لانڈرنگ اسکینڈل کا حصہ ہے اور سنگین نظامی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
گرین چینل کا بڑھتا ہوا خطرہ
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ اب تقریباً 60 فیصد درآمدات اور 85 فیصد برآمدات گرین چینل کے ذریعے کلیئر ہو رہی ہیں، جس سے پری کلیئرنس کنٹرولز کا دائرہ سکڑ رہا ہے۔
مزید یہ کہ ایف سی اے کے تحت ڈیکلریشن کی تفصیلات کی محدود رسائی نے اسیسمنٹ کے معیار کو متاثر کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ جدید کسٹمز سسٹمز ’فرنٹ اینڈ سہولت اور بیک اینڈ کنٹرول‘ کے توازن پر چلتے ہیں، لیکن پاکستان کسٹمز نے فرنٹ اینڈ سہولت پر زور دے کر بیک اینڈ کنٹرول کو نظر انداز کیا ہے، جس سے ریونیو اور کمپلائنس کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے