
غزہ میں موجود حماس کے رہنما جنگ بندی منصوبے سے متفق نہیں، بی بی سی
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے دعویٰ کیا ہے کہ ثالثوں نے غزہ میں حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ سے رابطہ کیا ہے، جنہوں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ امریکا کے نئے جنگ بندی منصوبے سے متفق نہیں ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سمجھا جاتا ہے کہ عزالدین الحداد کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ حماس کے خاتمے کے مقصد کے تحت تیار کیا گیا ہے، چاہے وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے، اور اسی وجہ سے وہ لڑائی جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی فریم ورک، جسے اسرائیل پہلے ہی قبول کرچکا ہے، میں جنگ کے خاتمے کے لیے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ حماس اپنے ہتھیار ڈال دے اور آئندہ غزہ کی حکومت میں اس کا کوئی کردار نہ ہو۔
سمجھا جاتا ہے کہ قطر میں موجود حماس کی بعض سیاسی قیادت اسے کچھ ترامیم کے ساتھ قبول کرنے پر آمادہ ہیں، لیکن ان کا اثر و رسوخ محدود ہے کیونکہ یرغمالیوں پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔
فلسطینی علاقے میں مسلح گروپ کی قید میں 48 یرغمالیوں کے ہونے کا یقین کیا جاتا ہے، جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔
حماس کے کچھ ارکان کے لیے ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ منصوبے کے تحت ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی کے ابتدائی 72 گھنٹوں میں تمام یرغمالیوں کو حوالے کر دیں، جس کا مطلب ہوگا کہ وہ اپنے واحد دباؤ کے ہتھیار سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ اسرائیل منصوبے کی شرائط پر عمل کرے گا، لیکن گروپ کے اندر یہ اعتماد موجود نہیں کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع نہیں کرے گا، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب گزشتہ ماہ امریکا کی مخالفت کے باوجود دوحہ میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملہ کیا گیا۔
یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کے کچھ رہنما امریکا اور عرب ممالک کی جانب سے غزہ میں تعینات کی جانے والی اُس فورس پر اعتراض کرتے ہیں جسے منصوبے میں ’عارضی بین الاقوامی استحکام فورس‘ کہا گیا ہے، اور وہ اسے قبضے کی ایک نئی شکل قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے گئے مجوزہ مرحلہ وار اسرائیلی فوجی انخلا کے نقشے میں غزہ کی مصر اور اسرائیل کے ساتھ سرحدوں پر ایک ’سیکیورٹی بفر زون‘ دکھایا گیا ہے، یہ واضح نہیں کہ اس کا انتظام کس طرح ہوگا، لیکن اگر اس میں اسرائیل شامل ہوا تو یہ بھی ایک متنازع نکتہ بن سکتا ہے۔
مزید برآں، پیر کی شام منصوبے پر اتفاق کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس کی کئی شقوں پر پیچھے ہٹتے ہوئے نظر آئے۔
ایکس پر جاری ایک ویڈیو میں انہوں نے اصرار کیا کہ اسرائیلی فوج غزہ کے کچھ حصوں میں موجود رہ سکے گی اور اسرائیل نے یہ بھی کہا کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کی ’زبردستی مزاحمت‘ کرے گا۔
یہ موقف امریکی فریم ورک کے برخلاف ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج مکمل طور پر انخلا کرے گی، سوائے اس حفاظتی حصار کے جو اس وقت تک موجود رہے گا جب تک غزہ دوبارہ کسی دہشت گردانہ خطرے سے محفوظ نہ ہوجائے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد فلسطینی خود ارادیت اور ریاست کے قیام کی جانب ’ایک معتبر راستہ‘ ممکن ہوسکتا ہے۔
حماس پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ اس وقت تک ہتھیار نہیں ڈالے گی جب تک ایک خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہ ہوجائے