
غزہ میں صحافیوں کا قتل، رائٹرز پر سہولت کاری کا سنگین الزام
ویلیری زنک نے لکھا کہ انس الشریف ’رائٹرز‘ کیلئے پلٹزر انعام کی جیت کی وجہ تھے، پھر بھی ان کا دفاع نہیں کیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر سے وابستہ کینیڈین صحافی ویلیری زنک نے غزہ میں گزشتہ دو برس میں 245 صحافیوں کے قتل کی سہولت کاری کا سنگین الزام اپنے ادارے پر لگاتے ہوئے ملازمت چھوڑنے کا اعلان کردیا۔
ویلیری زنک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ’رائٹرز‘ کے لیے کام جاری نہ رکھنے کا بیان پوسٹ کیا ہے۔
انہوں نے غزہ میں 245 ساتھی صحافیوں کے قتل کی ذمہ داری عالمی میڈیا آؤٹ لیٹ کو قرار دے دیا۔
کینیڈین صحافی نے اپنی پوسٹ پر لکھا کہ گزشتہ 8 برسوں سے میں ’رائٹرز نیوز ایجنسی‘ کے ساتھ بطور اسٹرنگر کام کر رہی ہوں، میرے فوٹوگراف نیویارک ٹائمز، الجزیرہ اور دیگر عالمی میڈیا اداروں میں شائع ہوئے ہیں، اور شمالی امریکا، ایشیا، یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں پہنچے۔
ویلیری زنک نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ اس مقام پر آ کر میرے لیے ’رائٹرز‘ کے ساتھ تعلق برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا ہے، کیوں کہ اس کا کردار غزہ میں 245 صحافیوں کے منظم قتل کی توجیہ دینے اور اسے سہولت فراہم کرنے میں ہے، اپنے فلسطینی ساتھیوں کے لیے مجھ پر کم از کم اتنا تو قرض ہے، یا اس سے کہیں زیادہ۔
کینیڈین صحافی نے مزید لکھا کہ جب اسرائیل نے 10 اگست کو غزہ سٹی میں انس الشریف اور الجزیرہ کی پوری ٹیم کو قتل کیا تو رائٹرز نے اسرائیل کا وہ بالکل بے بنیاد دعویٰ شائع کرنے کا انتخاب کیا کہ انس الشریف حماس کا رکن تھا، یہ ان بے شمار جھوٹوں میں سے ایک تھا جنہیں رائٹرز جیسے میڈیا ادارے بار بار دہراتے اور انہیں وقعت دیتے ہیں۔
انہوں نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے کی ’رائٹرز‘ کی آمادگی نے ان کے اپنے رپورٹرز کو بھی اسرائیل کی نسل کشی سے محفوظ نہیں رکھا، آج صبح ایک اور حملے میں النصر ہسپتال میں 20 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 5 مزید صحافی بھی شامل تھے، جن میں رائٹرز کے کیمرا مین حسام المسری بھی تھے۔
کینیڈین صحافی نے لکھا کہ یہ وہی تھا، جسے ’ڈبل ٹیپ‘ حملہ کہا جاتا ہے، یعنی اسرائیل کسی اسکول یا ہسپتال جیسے شہری ہدف پر بمباری کرتا ہے، پھر میڈیکس، ریسکیو ٹیموں اور صحافیوں کے پہنچنے کا انتظار کرتا ہے، اور دوبارہ حملہ کرتا ہے۔
مغربی میڈیا براہِ راست اس ماحول کا ذمہ دار ہے، جس میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے، جیسا کہ ڈراپ سائٹ نیوز کے جیریمی سکاہل نے کہا کہ ’ہر بڑا ادارہ نیویارک ٹائمز سے لے کر واشنگٹن پوسٹ تک، اے پی سے رائٹرز تک، اسرائیلی پروپیگنڈے کے لیے ایک کنویئر بیلٹ کا کردار ادا کرتا رہا ہے، جنگی جرائم کو صاف و شفاف بنا کر پیش کرتا ہے، متاثرین کو غیر انسانی بناتا ہے، اپنے ساتھیوں اور صحافت کی سچائی و اخلاقیات کے دعووں کی نفی کرتا ہے۔
کینیڈین صحافی نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا کہ مغربی میڈیا اداروں نے اسرائیل کے نسل کش بیانیے کو بغیر کسی تصدیق کے دہرا کر، صحافت کی بنیادی ذمہ داری کو ترک کرتے ہوئے اس قتلِ عام کو ممکن بنایا، جس میں صرف دو برس میں ایک چھوٹی سی زمینی پٹی پر اتنے صحافی مارے گئے جتنے پہلی جنگِ عظیم، دوسری جنگِ عظیم، کوریا، ویتنام، افغانستان، یوگوسلاویہ اور یوکرین کی جنگوں میں بھی نہیں مرے، اس کے علاوہ ایک پوری آبادی کو بھوکا رکھنا، بچوں کو چیر دینا اور لوگوں کو زندہ جلانا تو اپنی جگہ ہے۔
ویلیری زنک نے لکھا کہ ’انس الشریف کے کام کی وجہ سے ’رائٹرز‘ کے لیے پلٹزر انعام کی جیت بھی رائٹرز کو اس پر مجبور نہ کر سکی کہ جب اسرائیلی قابض افواج نے انہیں ’ہٹ لسٹ‘ پر ڈال دیا تو وہ ان کا دفاع کرتے، یہ جیت انہیں مجبور نہ کر سکی کہ جب انہوں نے عالمی میڈیا سے تحفظ کی اپیل کی اور ایک اسرائیلی فوجی ترجمان نے ویڈیو میں ان کے قتل کی نیت کا اعلان کیا تو وہ ان کا ساتھ دیتے، اور یہ جیت انہیں مجبور نہ کر سکی کہ جب چند ہفتوں بعد انہیں تلاش کر کے قتل کر دیا گیا تو وہ ان کی موت پر سچائی سے رپورٹنگ کرتے‘۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’میں نے ان 8 برس میں رائٹرز کے ساتھ کیے گئے اپنے کام کی قدر کی ہے، لیکن اس مقام پر میں اس پریس پاس کو شرمندگی اور غم کے سوا کسی جذبے کے ساتھ پہننے کا تصور نہیں کر سکتی، میں نہیں جانتی کہ غزہ کے صحافیوں (جو سب سے بہادر اور بہترین تھے) کی ہمت اور قربانی کو عزت دینے کا آغاز کیسے کیا جائے، لیکن آئندہ جو کچھ بھی میں کر سکوں گی، وہ اسی جذبے کے ساتھ ہوگا‘۔
دوسری جانب امریکی خبر ایجینسی میں کام کرنے والی مریم ابو دقہ کے شہید ہونے کے بعد میڈیا آؤٹ لیٹ نے خبر میں ان کا نام ہیڈلائن میں شامل نہیں کیا بلکہ صرف فری لانس صحافی کے طور پر ذکر کیا، جس پر سوشل میڈیا صارفین نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے