عوامی ایکشن کمیٹی سے معاملات طے پاگئے، جلد معاہدے پر دستخط متوقع ہیں، طارق فضل چوہدری
وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی سے معاملات طے پاگئے ہیں، جلد معاہدے پر دستخط متوقع ہیں۔
وفاقی وزیر پارلیمانی امور اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے اپنی ایکس پوسٹ میں کہا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی آزاد جموں و کشمیر سے معاملات طے پا گئے ہیں اور جلد حتمی معاہدے پر دستخط متوقع ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ مذاکرات کا آخری دور جاری ہے، عوامی مفادات اور امن ہماری ترجیح ہیں۔
واضح رہے کہ اس وقت آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مذاکرات کا دوسرا دور جاری ہے، حکومتی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے اس سے قبل کہا تھا کہ ہم کشمیری عوام کے حقوق کے مکمل حامی ہیں، عوامی مفاد کے زیادہ تر مطالبات پہلے ہی منظور کیے جاچکے ہیں، چند مطالبات کیلئے آئینی ترامیم درکار ہیں، ان پر بات چیت جاری ہے۔
مظفر آباد میں حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مذاکرات کا دوسرا دور ہوا۔
حکومت کی طرف سے مذاکرات میں سینیٹر رانا ثنااللہ، احسن اقبال اور سردار یوسف، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، قمر زمان کائرہ اور انجینئر امیر مقام شریک ہیں جبکہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ۔سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان بھی مذاکرات کا حصہ ہیں۔
آزاد کشمیر کی حکومتی مذاکراتی کمیٹی بھی اجلاس میں شریک ہے جبکہ شوکت نواز میر، راجہ امجد ایڈووکیٹ اور انجم زمان عوامی ایکشن کمیٹی کی نمائندگی کی۔
قبل ازیں، وفاقی وزیر پارلیمانی امور اور وزیر اعظم کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے بیان میں کہا کہ ہم کشمیری عوام کے حقوق کے مکمل حامی ہیں، عوامی مفاد کے زیادہ تر مطالبات پہلے ہی منظور کیے جا چکے ہیں، باقی چند مطالبات جن کے لیے آئینی ترامیم درکار ہیں ان پر بات چیت جاری ہے۔
ڈاکٹر طارق فضل نے واضح کیا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں، امید ہے کہ ایکشن کمیٹی تمام مسائل کو پُرامن مکالمے کے ذریعے حل کرے گی۔
یاد رہے کہ 3 روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کے دوران مواصلاتی بلیک آؤٹ نے آزاد کشمیر کو مفلوج کر دیا تھا، کیونکہ مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی (جے اے اے سی) اپنے مطالبات پر بضد ہے، پچھلے ہفتے عوامی ایکشن کمیٹی اور وفاقی وزرا کے ساتھ مذاکرات کے دوران اشرافیہ کی مراعات اور مہاجرین کے لیے مخصوص نشستوں سے سے متعلق شرائط پر ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا تھا۔
اس کے بعد حریف گروپوں نے مظاہرے کیے اور ایک دوسرے کو اس تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا جس سے بڑے پیمانے پر پُرامن تحریک متاثر ہوئی تھی








































