
سی ڈی اے افسران کو زرعی پلاٹ کی منتقلی کیلئے خلیجی ملک جانے سے روک دیا گیا
سی ڈی اے ٹیم نے سابق سفارتکار کی ملکیت زمین کو خلیجی ملک کے شہری کے نام منتقل کرنے جانا تھا۔
وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کی انتظامیہ نے اپنے افسران کو اسلام آباد میں ایک زرعی پلاٹ کی غیر معمولی منتقلی کے لیے خلیجی ملک کا سفر کرنے سے روک دیا ہے۔
سی ڈی اے کے 3 افسران اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) انتظامیہ کے ایک افسر نے سابق سفارت کار کی ملکیت 2.72 ایکڑ زمین کو خلیجی ملک کے ایک اور شہری کے نام منتقل کرنے کے لیے اس ملک کا دورہ کرنا تھا، تاہم انہیں اس سفر سے روک دیا گیا ہے، یہ جائیداد وفاقی حکومت کی پیشگی منظوری کے بغیر منتقل نہیں کی جا سکتی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فروری 2024 میں وزارت داخلہ نے اس پلاٹ کی منتقلی کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) جاری کیا تھا، اس کے بعد سی ڈی اے انتظامیہ نے 4 رکنی وفد کو مذکورہ ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کا خرچ اس ملک کے سفارتخانے نے اٹھانا تھا۔
ذرائع کے مطابق جب اس معاملے کو ایک اخبار نے اجاگر کیا تو سی ڈی اے انتظامیہ نے مزید کارروائی روک دی، کیوں کہ غیر ملکیوں کے پاکستان میں زمین خریدنے کے معاملے پر 1946 کا فارنرز ایکٹ لاگو ہوتا ہے، جسے حکومت پاکستان نے اپنایا ہوا ہے، اور اس کے مطابق وفاقی حکومت کی تحریری اجازت کے بغیر کوئی غیر ملکی پاکستان میں زمین نہیں خرید سکتا۔
جب اس سلسلے میں سی ڈی اے کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سی ڈی اے نے ابتدائی طور پر اس معاملے کو پراپرٹی مینول کے سیکشن 13 کے تحت پراسیس کیا تھا، جو غیر ملکی شہریوں کو وزارت داخلہ، حکومت پاکستان کی پیشگی منظوری سے جائیداد خریدنے کی اجازت دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تاہم، وفاقی حکومت نے واضح کیا ہے کہ 9 ستمبر 1984 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کی روشنی میں، جو فارنرز ایکٹ 1946 کے تحت جاری ہوا، کسی بھی جائیداد کے حصول کے لیے وفاقی حکومت کی واضح منظوری ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ عارضی انتظام روک دیا گیا ہے، اور یہ معاملہ صرف اسی صورت میں دوبارہ پراسیس کیا جا سکتا ہے جب متوقع خریدار وفاقی حکومت سے مطلوبہ منظوری حاصل کرے گا، مزید یہ واضح کیا جاتا ہے کہ یہ سفر یا کوئی اور انتظام عوامی خرچ پر نہیں کیا جارہا تھا۔
سی ڈی اے کے ایک افسر نے بتایا کہ ہم نے صرف برادر ملک کے سفیر کی درخواست پر وزارت داخلہ کے جاری کردہ این او سی کے مطابق کارروائی کی تھی، لیکن اب ہم نے یہ معاملہ روک دیا ہے، اب اس کیس کا فیصلہ وفاقی حکومت کرے گی۔
اس پیش رفت کے بعد ’ڈان‘ نے معلومات اکٹھی کیں کہ آیا غیر ملکی اسلام آباد میں زمین خرید سکتے ہیں یا نہیں، جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فارنرز ایکٹ 1946 کے تحت، اور خاص طور پر 1984 کے بعد، غیر ملکی پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں خرید سکتے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے ستمبر 1984 میں جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ فارنرز ایکٹ 1946 کی دفعہ 3 کے تحت حاصل اختیارات کے تحت، وفاقی حکومت یہ حکم جاری کرتی ہے کہ کوئی غیر ملکی براہ راست یا بالواسطہ پاکستان میں زمین یا زمین میں کسی قسم کا مفاد حاصل نہیں کرے گا، سوائے اس کے کہ وفاقی یا صوبائی حکومت کی پیشگی تحریری اجازت حاصل ہو۔
اور ایسی اجازت میں شامل شرائط کے مطابق وہ تمام غیر ملکی جنہوں نے اس حکم کے نافذ ہونے سے پہلے کسی بھی وقت زمین یا زمین میں کوئی مفاد حاصل کیا ہے، وہ اگر حکومت کی جانب سے کہا جائے تو وفاقی یا صوبائی حکومت یا مجاز اتھارٹی کو مکمل تفصیلات فراہم کریں گے کہ وہ زمین یا جائیداد کہاں ہے اور کس مقصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے