
سپریم کورٹ نے رائل پام گالف کنٹری کلب کو پاکستان ریلوے کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت عظمیٰ کے جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے رائل پام گالف کنٹری کلب اراضی کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے رائل پام انتظامیہ کا معاہدہ کالعدم قرار دے دیا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ رائل پام کنٹری کلب کے تمام معاملات ریلوے انتظامیہ دیکھے گی، پاکستان ریلوے رائل پام کے تمام انتظامات بہترین طریقے سے انجام دے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ 3 ماہ میں رائل پام کے بہترین انتظامات کیے جائیں اور اسی عرصے میں نئی انتظامیہ سے متعلق بھی قواعد و ضوابط طے کیے جائیں۔دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل میں قوم کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اللہ کے کرم سے رائل پائم کیس کا فیصلہ آگیا۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کوسیلوٹ پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے انصاف پر مبنی فیصلہ دیا۔انہوں نے کہا کہ قبضہ مافیا کھربوں کی زمین پر قبضہ کرکے بیٹھا تھا جبکہ ریلوے کے خسارے کے مشکل ترین وقت میں یہ فیصلہ آگیا۔خیال رہے کہ گزشتہ برس اپریل میں احتساب کے قومی ادارے کی جانب سے رائل پام گالف کلب اسکینڈل کیس سے متعلق ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔نیب کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 2001 میں پاکستان ریلوے نے لاہور میں نہر کنارے اپنے گالف کلب کی اراضی 33 سالہ لیز کے لیے پیش کش کی تھی، جس کے لیے متعدد کمپنیوں نے بولیاں جمع کروائیں تھی، جس میں نجی کمپنی میکس کورپس بھی شامل تھی، تاہم بولی کے عمل کے دوران لیز کے دورانیے کو غیر قانونی طور پر 33 سے بڑھا کر 49 سال کردیا گیا۔اس کے علاوہ پیش کش کی گئی کہ زمین کے رقبے کو بھی غیر قانونی طور پر ریلوے آفیسرز کالونی گرا کر 103 سے 140 ایکڑ کردیا گیا، لہٰذا پاکستان ریلوے کی زمین کا قیمتی ٹکرا غیر شفاف طریقے سے غیر قانونی طور پر لیز ہوا، جس کا مقصد غیر قانونی طریقے سے لیز رکھنے والے اور ایک نجی کمپنی مین لینڈ حسنین پاکستان لمیٹڈ کے مالک کو فائدہ پہنچانا تھا۔نیب تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملزمان نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے 2001 میں تجارتی مقاصد کے لیے مین لینڈ حسنین پاکستان لمیٹڈ کو ریلوے گالف کلب کی 49 سالہ لیز اور 140 ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر دے کر مبینہ طور پر کرپشن کی، جس کی وجہ سے قومی خزانے کو تقریباً 2 ارب 20 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔