سوات: چھٹیاں کرنے پر مدرسے کے اساتذہ کے مبینہ تشدد سے کم عمر طالب علم جاں بحق
سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ کے گاؤں چلیار میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے، جس نے پوری وادی کو ہلا کر رکھ دیا ہے، پیر کی شام مدرسے کا کم عمر طالب علم فاران، مبینہ طور پر اپنے اساتذہ کے ہاتھوں شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد جان کی بازی ہار گیا۔
فاران ذہین اور خاموش طبع لڑکا تھا، جو چند دنوں کی غیر حاضری کے بعد دوبارہ مدرسے آیا، لیکن اس کی واپسی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔
پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق 3 اساتذہ محمد عمر، ان کے بیٹے احسان اللہ، اور ایک اور شخص عبداللہ نے مبینہ طور پر اسے دوسرے طلبہ کے سامنے مارنا شروع کیا، یہ مارپیٹ غیر حاضری کی سزا کے طور پر شروع ہوئی، اور جلد ہی بے رحمانہ تشدد میں تبدیل ہوگئی۔
ایک ہم جماعت، جو شدید صدمے میں تھا، اس نے بتایا کہ فاران چند دن غیر حاضر رہا تھا اور ابھی واپس آیا تھا، اساتذہ نے اسے بہت زور سے مارنا شروع کر دیا، بعد میں اسے ایک کمرے میں لے جا کر مار پیٹ جاری رکھی، مجھے پانی لانے کے لیے بلایا گیا، اُس نے تھوڑا سا پانی پیا، پھر اپنا سر میری گود میں رکھ دیا، اور خاموش ہو گیا۔
طلبہ اور اساتذہ نے فاران کو قریبی ہسپتال پہنچایا، مگر ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سوات کے ترجمان معین فیاض نے تصدیق کی ہے کہ تینوں ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے، ان میں سے ایک ملزم عبداللہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے، باقی 2 کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ یہ نہایت افسوس ناک اور تشویش ناک کیس ہے، مکمل تفتیش جاری ہے، ہم بچے اور اس کے خاندان کو انصاف دلانے کے لیے پُرعزم ہیں۔
یہ واقعہ پورے علاقے میں غم، غصے اور اصلاحات کے مطالبے کو جنم دے رہا ہے، کچھ دینی مدارس میں اساتذہ کے بے لگام اختیارات اور تشدد کے ذریعے نظم و ضبط قائم کرنے کے طریقے پر ایک بار پھر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور مقامی عوام نے نہ صرف مجرموں کو سزا دینے بلکہ آئندہ ایسے سانحات کو روکنے کے لیے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک مقامی بزرگ نے کہا کہ فاران ہم سب کا بچہ ہو سکتا تھا، وہ پڑھنے گیا تھا، لیکن واپس نہیں آیا۔
فاران کے چچا نے بتایا کہ جب وہ گھر پر تھا تو مدرسے جانے سے ڈرتا تھا اور واپس نہیں جانا چاہتا تھا، میں خود اسے مدرسے لے گیا، اساتذہ کے حوالے کیا، اور واپس آ گیا، اسی شام ایک استاد کا فون آیا اور بتایا کہ میرا بھتیجا بیت الخلا میں گر کر فوت ہو گیا ہے








































