
سندھ میں متوقع سیلاب، کچھ لوگوں کے لیے رحمت تو کچھ کے لیے تباہی کا سامان
جہاں سندھ میں سیلاب چند کاشتکاروں کے لیے امید کا پروانہ ہوتا ہے وہیں یہ پانی دریا کنارے آباد لوگوں کو ان کے گھروں سے محروم بھی کردیتا ہے۔
نوجوان ماہی گیر سبحان علی کے جال میں دریائے سندھ میں ایک بھی مچھلی نہ پھنس سکی۔ کئی گھنٹوں تک وہ ندی کے کنارے انتظار کرتے رہے جو حیدرآباد کے نواح میں واقع قصبہ لطیف آباد کے حسین آباد محلے کو چھوتا ہے لیکن ان کی عارضی مچھلی پکڑنے کی چھڑی (فشنگ راڈ) کوئی مچھلی نہ پکڑ پائی۔
’ہم اسے چمبی کہتے ہیں‘، دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر حیدرآباد-کوٹری ریلوے پل کے نیچے کی جانب جاتے ہوئے انہوں نے اڈ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا۔ یہ ایک لکڑی کا فریم تھا کہ جو لکڑی کے متعدد ٹکڑوں سے چپکا ہوا تھا اور ایک سرے پر جال بندھا ہوا تھا۔ سبحان علی نے فوم کا ایک ٹکڑا اپنی کمر کے گرد رسی سے باندھ رکھا تھا جس کے بارے میں انہوں نے بتایا، ’یہ (فوم) مجھے دریا میں تیرنے میں مدد دیتا ہے‘۔
نوجوان ماہی گیروں کا ایک گروپ جال کے ایک سرے کو پکڑے ہوئے ہے جبکہ ان کے ساتھی دریائے سندھ میں جا رہے ہیں
بیشتر دنوں وہ کم بہاؤ اور تیز بہاؤ والے دریا کے دونوں حصوں میں تیراکی کرتے ہیں۔ جب وہ پانی میں جاتے ہیں تو سبحان علی چمپی کو کَس کر پکڑ لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’جیسے ہی مچھلی (جال سے) ٹکراتی ہے، میرا ہاتھ حرکت محسوس کرلیتا ہے۔ لیکن ان دنوں ہم پلا مچھلی پکڑنے کی امید کررہے ہیں جوکہ ایک نایاب قسم کی مچھلی ہے‘۔
اپنے اچھے دنوں میں وہ تقریباً 5 سے 6 چھوٹی مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں جن میں سے ہر ایک 200 روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ حال ہی میں سبحان علی اور ان جیسے دیگر ماہی گیر کئی گھنٹے دریا میں گزار رہے ہیں۔ کوٹری کے علاقے سے نیچے کی جانب پانی کا بہاؤ بڑھنے سے دریا کا پاٹ بڑا ہوگیا ہے۔
ماہی گیروں کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد پلا مچھلی
دریا، زندگی کی امید
سندھ کے لوگوں کے دلوں میں دریائے سندھ ایک خاص حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس کی اہمیت کو سراہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کی ڈور اس سے جڑی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ رواں سال اپریل تک صوبے میں دریا میں نہر بنانے کے خلاف ایک بڑی تحریک چلی تھی جس کی قیادت وکلا اور سیاسی قوتوں نے کی۔ یہ منصوبہ وزیراعظم کی زیرِقیادت مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کے اس اعلان پر ختم ہوا کہ جب تک صوبوں کے درمیان باہمی مفاہمت نہیں ہو جاتی تب تک دریا پر کوئی نئی نہریں نہیں بنائی جائیں گی۔
سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے نائب صدر نبی بخش ستھیو جوکہ ایک ترقی پسند کاشتکار ہیں، نے وضاحت کی کہ ’سندھ میں سیلاب کو ایک مثبت علامت کے طور پر لیا جاتا ہے کیونکہ یہ صوبہ سندھ طاس آبپاشی کے نظام (آئی بی آئی ایس) کے بالکل آخر میں واقع ہے‘۔
انہوں نے کہا، ’میرے خیال میں ان دنوں دریائے سندھ میں بہت زیادہ پانی ہے۔ اس سے یقینی طور پر ان تمام علاقوں کو فائدہ پہنچے گا کہ جہاں سے تین بیراجوں سے پانی کا ریلا گزرے گا‘۔
شہری ادارے کے عملہ کے دو بزرگ اراکین لطیف آباد کے لیے پینے کا پانی اٹھانے کے لیے دریائے سندھ کے کنارے قائم پانی کی سہولت کے قریب بیٹھے ہیں
نبی بخش ستھیو کے مطابق، بالائی پنجاب کے برعکس سندھ میں زیرِزمین پانی عموماً کھارا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’موجودہ پانی کے بہاؤ سے زیرِ زمین پانی کو دوبارہ بھرنے اور اسے تھوڑا سا بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ 4 اضلاع، ٹنڈو محمد خان، سجاول، ٹھٹہ اور بدین میں نکاسی آب کے نظام کے قریب واقع زرعی زمینیں اپنی زرخیزی کھو چکی ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ دریائے سندھ کے دو کناروں کے درمیان بہنے والا پانی تمام قریبی علاقوں میں زمین کی زرخیزی کو واپس لانے میں معاون ثابت ہوگا۔
جب بھی پانی کا بڑا ریلا بیراجوں سے گزرتا ہے تو دریائے سندھ کے ساتھ واقع علاقوں میں سیلاب آجاتا ہے جسے زمین کے لیے اچھا قرار دیا جاتا ہے۔ اس پانی سے جنگلات بھی مستفید ہوتے ہیں۔
محکمہ جنگلات کی ویب سائٹ کے مطابق، سندھ کا کُل رقبہ ایک کروڑ 40 لاکھ 99 ہزار ہیکٹر (یا 3 کروڑ 48 لاکھ 40 ہزار ایکڑ) ہے۔ اس میں سے ایک کروڑ 38 لاکھ 40 ہزار ہیکٹر (یا 3 کروڑ 42 لاکھ 60 ہزار ایکڑ) محکمہ جنگلات کے زیر انتظام ہے جوکہ صوبے کی کُل اراضی کا تقریباً 9.83 فیصد ہے۔ تاہم دریا کے جنگلات اور سیراب شدہ شجرکاری زمین کا صرف 2.29 فیصد بنتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں جنگلات کے زیادہ وسائل موجود نہیں ہیں۔
لطیف آباد یونٹ 10 میں بھینسوں کا ریوڑ ندی کے پانی میں نہا رہا ہے
دریا کے کنارے واقع علاقوں میں فصل اچھی طرح اُگتی ہے اور جب زیادہ پانی بہتا ہے تو یہ قدرتی طور پر مٹی کو بہتر بناتا ہے۔
کاشتکاروں کے گروپ سندھ آبگدار بورڈ (ایس اے بی) کے صدر محمود نواز شاہ نے کہا، ’اگر پانی کی سطح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اسے اونچا سیلاب کہا جاتا ہے تو دریا کا علاقہ جسے دریا کے حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، پانی سے بھر جاتا ہے۔ یہ مکمل طور پر معمول کی بات ہے۔ درحقیقت یہ دریا کے لیے ضروری ہے۔ یہ ماحول کو صحت مند رکھنے میں مدد کرتا ہے، جنگلی حیات، جنگلات اور زیرِزمین پانی کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا، ’تو ایسے میں کچھ فصلوں کا پانی سے متاثر ہونا معمول کی بات ہے جوکہ دریا کے کنارے موجود ہوتی ہیں۔ پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ بات دریا کے لیے غیرمعمولی نہیں‘۔
سیلاب سے خطرہ
دوسری جانب دریاؤں میں سیلاب، کچے کے مکینوں کی نقل مکانی اور گھروں سے محرومی کا باعث بنتا ہے۔ کچا ایک ایسی اصطلاح ہے جو ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ اس سے مراد وہ علاقے ہیں جو دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر واقع ہیں۔ گڈو سے کوٹری بیراج تک، ان علاقوں میں صدیوں سے لاکھوں لوگ آباد ہیں۔
خانہ بدوش خاندان کی ایک عورت گندم کا آٹا گوندھ رہی ہے
حال ہی میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کچے کے علاقے میں رہنے والی آبادی کے لیے انخلا کی حکمت عملی کا اعلان کیا جس میں تین بیراجوں سے گزرنے والے دریا کے بہاؤ میں فرق کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’یہ ہمارے ذہن میں ہے کہ کسی بھی حالت میں انسانی جانوں اور مویشیوں کی حفاظت کی جائے۔ چاہے پانی 8 لاکھ کیوسک، 9 لاکھ کیوسک ہو یا اس سے خدا نخواستہ اس سے زائد ہو، اس سے ہمارے تمام کچے کے علاقے ڈوب جائیں گے تو ہمیں ان علاقوں سے لوگوں کو نکالنے کی ضرورت ہے’۔
خانہ بدوش برادری سے تعلق رکھنے والی شمع باگڑی اپنے خاندان کے ساتھ پالاری گاؤں میں رہتی ہیں جو حسین آباد کے علاقے میں واقع ہے۔ دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر رنگ برنگے پھٹے پرانے کپڑوں سے ڈھکی ایک چھوٹی سی جھونپڑی ان کی پناہ گاہ ہے۔ شمع نے بتایا، ’ہم ٹنڈو محمد خان سے یہاں آکر آباد ہوئے تاکہ پھل فروخت کرکے یا یومیہ مزدوری کر کے روزی کما سکیں‘۔ ان کی جھونپڑی دریا سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے ٹیلے پر بنی ہوئی ہے۔
دریا کے کنارے آباد علاقے لطیف آباد یونٹ-4 میں خانہ بدوشوں کی عارضی بستی
اس حصے میں تقریباً 35 باگڑی خاندان رہتے ہیں۔ پریمو باگڑی ان میں سے ایک ہیں۔ ابھی کے لیے انہیں یقین ہے کہ دریا انہیں اور ان کی برادری کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ انہوں نے میونسپل باڈی کے زیرِ انتظام شہر کو پینے کے پانی کی فراہمی کرنے والے واٹر پمپنگ کی سہولت کے قریب پتھروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’پچھلے سال جب پانی کا بہاؤ سب سے زیادہ تھا تو دریا کی سطح اتنی بلندی پر پہنچ گئی تھی‘۔
ان کے لیے واٹر پمپنگ اسٹیشن پانی کی سطح کی پیمائش کا کام کرتا ہے کہ جب پانی ایک مخصوص سطح کو عبور کرتا ہے تو وہ ان کے لیے عارضی طور کسی اور جگہ منتقل ہونے کا عندیہ ہوتا ہے۔ پریمو نے کہا، ’جب پانی کی سطح میں اضافہ ہونے لگتا ہے تو ہم یہ بھانپ لیتے ہیں۔ میں پھر یہاں سے دریائے سندھ کو دیکھتا ہوں اور اپنا اندازہ لگاتا ہوں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ فی الوقت میں پریشان نہیں ہوں‘۔
پانی کی سطح کا تخمینہ لگانا
پچھلے کچھ دنوں سے حکام یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پنجاب کے مشرقی دریاؤں سے آنے والا سیلابی پانی کب سندھ پہنچتا ہے۔ آبپاشی حکام ملک کے مشرقی دریاؤں میں پانی کے اخراج کا جائزہ لینے کے بعد تخمینہ لگا رہے ہیں۔ دریائے چناب گزشتہ ہفتے تقریباً 17 لاکھ 50 ہزار کیوسک کی بلندی پر پہنچ گیا تھا جس نے سندھ حکومت کو ’سپر فلڈ‘ کے لیے تیار رہنے کے لیے خبردار کیا۔
سندھ کے طاقتور دریا میں کوٹری آخری بیراج ہے۔ بیراج سے دریا گزرنے کے بعد مختلف کھاڑیوں کے ذریعے ساحلی ضلع ٹھٹہ سے بحیرہ عرب میں داخل ہوتا ہے۔ جولائی سے دریائے سندھ سیلاب کی حالت میں ہے۔
سندھ کے کوٹری بیراج کے نیچے دریائے ماہی گیروں کے ساتھ لکڑی کی کئی کشتیاں ماہی گیری میں مصروف ہیں
رواں سال سندھ کے دو اہم گڈو اور سکھر بیراجوں میں جولائی اور اگست کے مہینوں میں درمیانے اور اونچے درجے کا سیلاب آیا تھا۔ اب حکام ایک اور سیلاب کی تیاری کررہے ہیں جس کے حوالے سے اتوار کو وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی پریس کانفرنس میں روشنی ڈالی کہ گڈو بیراج میں پہلے ہی 24 اگست کو دریائے سندھ میں 5 لاکھ 50 ہزارکیوسک کا زیادہ بہاؤ دیکھا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت بدترین صورت حال کے لیے تیاری کر رہی ہے۔
انہوں نے سکھر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موسم کسی بھی سمت میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ پہاڑیوں سے آنے والا پانی کیسا ہوگا جیسا کہ کوہِ سلیمان رینج سے جب 2010ء میں سیلاب سندھ میں داخل ہوا‘۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مطابق سندھ حکومت 9 لاکھ کیوسک یا زائد کے سپر فلڈ کے لیے خود کو تیار کررہی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
ماہی گیر سبحان علی اپنے چھوٹے جال سے حسین آباد میں دریائے سندھ پر کوٹری-حیدرآباد ریلوے پل کے قریب پلا پکڑنے کے لیے اپنی قسمت آزما رہے ہیں
اس کے علاوہ محکمہ آبپاشی کے اعداد و شمار کے مطابق، سندھ میں گڈو بیراج سے 12 لاکھ کیوسک پانی کے اخراج کی گنجائش موجود ہے جس کے بعد سکھر بیراج آتا ہے کہ جس سے 9 لاکھ کیوسک اور کوٹری میں 8 لاکھ 75 ہزار کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش موجود ہے۔ سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت 15 لاکھ کیوسک کے پانی کے اخراج کی گنجائش تھی لیکن اوپر کی طرف گاد جمع ہونے کی وجہ سے، اس کے 10 دروازے بند کرنے پڑے۔ اس طرح اس کی گنجائش کم ہو کر 9 لاکھ کیوسک رہ گئی۔
آخری بار گڈو اور سکھر بیراج سے 15 سال قبل سپر فلڈ گزرے تھے۔ 8 اگست 2010ء کو گڈو سے 11 لاکھ 48 ہزار 200 کیوسک کا بہاؤ ڈاون اسٹریم (دریا کا نچلا حصہ) سے گزرا تھا جس کے بعد اپ اسٹریم (بالائی حصہ) میں 11 لاکھ 48 ہزار 738 کیوسک کا بہاؤ تھا۔ سکھر بیراج میں اسی دن 11 لاکھ 30 ہزار 995 کیوسک اپ اسٹریم ہونے کے بعد 11 لاکھ 8 ہزار 795 کیوسک ڈاون اسٹریم سے گزرا۔ اس کے علاوہ کوٹری بیراج نے 27 اگست 2010ء کو 9 لاکھ 39 ہزار 442 کیوسک نیچے کی جانب سے گزرا جس کے بعد 9 لاکھ 64 ہزار897 کیوسک اپ اسٹریم سے گزرا۔
تاہم یہ سیلاب تباہی لے کر آیا تھا۔ 7 اگست 2010ء کو گڈو بیراج کے اوپری حصے میں دریائے سندھ کے دائیں جانب توری ڈیک پر ایک بڑا بریک ہوا تھا جوکہ دریا کے دائیں کنارے پر واقع اضلاع کے لیے تباہی کا پروانہ ثابت ہوا۔ 20 روز بعد کوٹ المو ڈاون اسٹریم کوٹری بیراج پر ایک اور شگاف نے مزید تباہی مچا دی۔
کوٹری بیراج کے نیچے سہرش نگر کے علاقے میں ماہی گیر سے پلا خریدنے کے لیے ایک گاہک ماہی گیر سے بھاؤ تاؤ میں مشغول ہے
اس وقت صوبائی حکام اس بات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں کہ پنجاب میں تریموں اور پنجند بیراجوں پر پانی کس طرح گزر رہا ہے۔ پاکستان کے دریائی نظام کے نقشے کے مطابق، پنجند بیراج وہ مقام ہے جہاں سے تمام بڑے دریاؤں جہلم، چناب، راوی اور ستلج کا پانی جمع ہوتا ہے جس کے بعد وہ گڈو بیراج کے ذریعے سندھ میں داخل ہوتا ہے۔ اس مقام پر دریائے چناب کا پانی، راوی اور ستلج کے پانی سے پہلے گڈو تک پہنچنے کی توقع ہے۔
فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن (ایف ایف ڈی) کے چارٹ کے مطابق تریموں بیراج پر پانی کی سطح پیر کی رات تک بڑھ رہی تھی لیکن اب مسلسل نیچے جارہی ہے۔ اس میں 8 لاکھ 75 ہزار کیوسک کے اخراج کی گنجائش ہے۔ اس وقت اس میں دریائے چناب سے سیلابی پانی جمع ہورہا ہے جوکہ تقریباً 10 لاکھ 77 ہزار 951 کیوسک پانی ہے جو اس سے پہلے گزشتہ ہفتے خانکی اور قادر آباد بیراجوں سے گزرا تھا۔
پانی کو تریموں سے پنجند تک سفر کرنے میں تقریباً 48 گھنٹے لگتے ہیں جو کہ دریائے سندھ میں پانی کے بہنے سے پہلے پنجاب کا آخری پڑاؤ ہے۔ اس کے بعد پانی کو مٹھن کوٹ تک پہنچنے میں مزید 24 گھنٹے لگتے ہیں جہاں سے یہ گڈو بیراج پہنچتا ہے۔
کوٹری بیراج کے نیچے دریائے سندھ میں ماہی گیر اپنی لکڑی کی کشتیوں میں مچھلیاں پکڑ رہے ہیں
ایف ایف ڈی ندی کے پانی کے بہاؤ کے چارٹ کے مطابق، پیر کی شام 4 بجے تریموں سے نیچے کی جانب پانی کا اخراج 5 لاکھ 50 ہزار 655 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ لیکن منگل کی دوپہر تک ڈاون اسٹریم اخراج صبح 8 بجے 5 لاکھ 16 ہزار 313 کیوسک تک پہنچنے کے بعد 4 لاکھ 45 ہزار 712 کیوسک رہ گیا۔ اس بہاؤ کے ساتھ، تریمو میں شاید پانی کی سطح کم ریکارڈ ہورہی ہے جس سے گڈو پر حکام کے لیے دباؤ میں کمی ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب منگل کی دوپہر پنجند ڈاؤن اسٹریم کا اخراج 10 لاکھ ایک ہزار 664 کیوسک ریکارڈ کیا گیا جبکہ گڈو بیراج سے بہاؤ بڑھنا شروع ہوا جس کے ساتھ ہی بہاؤ 3 لاکھ 60 ہزار 777 کیوسک اپ اسٹریم اور 3 لاکھ 45 ہزار 373 کیوسک بہاؤ ہے۔
دریا کے بہاؤ کی بنیاد پر بیان کردہ مختلف زمروں وک دیکھا جائے تو کسی بھی بیراج سے نیچے کی جانب گزرنے والے بہاؤ کو سیلاب کہا جاتا ہے۔
فلڈ فورکاسٹنگ سینٹر کے مطابق، تربیلا ڈیم جو سندھ کے لیے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، کی بہترین سطح ایک ہزار 500 فٹ پر ہے اس کے علاوہ دریائے سندھ پر چشمہ بیراج بھی کچھ پانی روک رہا ہے۔ اس کے پانی کی سطح حال ہی میں 647 فٹ سے بڑھ کر 648 فٹ ہوگئی تھی تاکہ سندھ کو مشرقی دریاؤں سے آنے والے سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے۔
اگرچہ سیلاب نے خطے کے کاشتکاروں اور دیگر ماہی گیروں میں امیدیں جگائی ہیں لیکن کچے کے باشندے تباہی اور بے گھر ہونے کے ایک اور سال کے لیے خود کو تیار کرتے ہوئے متوقع آبی ریلے کا انتظار کر رہے ہیں۔
ہیڈر: کشتیاں دریائے سندھ کے کنارے کھڑی ہیں، کوٹری بیراج کے نیچے دریا کے کنارے کے اس حصے میں ابھی پانی داخل نہیں ہوا تھا