
سلامتی کونسل: امریکا نے غزہ میں فوری اور غیرمشروط جنگ بندی کی قرارداد پھر ویٹو کردی
امریکا نے صدر ٹرمپ کی صدارت سنبھالنے کے بعد دوسری بار اور مجموعی طور پر چھٹی مرتبہ غزہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کی ہے
امریکا نے ایک مرتبہ پھر غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مسودہ قرار داد ویٹو کردیا، آئندہ ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی آمد متوقع ہے، اس دوران غزہ اور قطر میں بڑھتے ہوئے بحران عالمی سفارتی ترجیحات کو ازسرِنو تشکیل دے رہے ہیں، جن کے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر بھی اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
جمعرات کو واشنگٹن نے حسبِ روایت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک مسودہ قرارداد ویٹو کر دیا، جس میں غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کے علاوہ اسرائیل پر محصور علاقے میں امداد کی ترسیل پر عائد تمام پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ قرارداد سلامتی کونسل کے 15 میں سے 10 منتخب ارکان نے تیار کی تھی اور اسے 14 ووٹ ملے، لیکن امریکا نے چھٹی بار ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کا ساتھ دیا۔
گزشتہ ہفتے ایک نادر موقع پر امریکا نے سلامتی کونسل کے ایک بیان کی حمایت کی تھی جس میں قطر پر حالیہ حملوں کی مذمت کی گئی، تاہم متن میں اسرائیل کا ذکر شامل نہیں تھا۔
ایک اور غیر متوقع پیش رفت میں امریکی ڈیموکریٹ سینیٹرز نے ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔،اگرچہ اس کے ایوان میں منظور ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کو 53 کے مقابلے میں 47 کی اکثریت حاصل ہے، لیکن قرارداد امریکا سے ایک غیر مسلح فلسطینی ریاست کو ایک محفوظ اسرائیل کے ساتھ تسلیم کرنے پر زور دیتی ہے۔
ڈیموکریٹ سینیٹر جیف مرکلی نے کہا کہ ’امریکا کی ذمہ داری ہے کہ قیادت کرے، اور وقت آگیا ہے کہ عمل کیا جائے‘۔
دوسری جانب، آئندہ ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی آمد متوقع ہے، اور اس دوران غزہ اور قطر میں بڑھتے ہوئے بحران عالمی سفارتی ترجیحات کو ازسرِنو تشکیل دے رہے ہیں، جن کے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر بھی اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف جنرل اسمبلی سے خطاب کے علاوہ ایک اعلیٰ سطح کی بین الاقوامی کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے، جس کا موضوع فلسطین کے مسئلے کا پرامن حل اور دو ریاستی حل پر عمل درآمد ہے، یہ کانفرنس پیر کو ہوگی اور اس کے دوران پاکستانی وفد کی عرب اور مسلم رہنماؤں سے قریبی مشاورت ضروری ہوگی۔
اس ہفتے ایک پریس بریفنگ میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کہا کہ جنرل اسمبلی ’بہت ہی ہنگامہ خیز بلکہ غیر متوقع حالات‘ میں منعقد ہو رہی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ لگ بھگ 150 سربراہانِ مملکت و حکومت اور ہزاروں سفارت کار و حکام اس ’سفارت کاری کے ورلڈ کپ‘ میں شریک ہوں گے جو پیر کو نیویارک میں شروع ہوگا۔
فلسطینی مندوب ریاض منصور کے مطابق ’فلسطین اس اجلاس کا سب سے بڑا اور مرکزی مسئلہ ہوگا، جو عالمی رہنماؤں کو مصروف رکھے گا‘۔
شیڈول کی تبدیلی
اسلام آباد کے حالیہ مؤقف، جس میں قطر پر اسرائیلی فضائی حملے کی کھل کر مذمت اور اس کے بعد ہونے والی سفارتی سرگرمیوں نے پاکستان کی اہمیت مسلم دنیا میں مزید اجاگر کی ہے، اس کے ساتھ سعودی عرب کے ساتھ حالیہ دفاعی معاہدے پر دستخط نے اسے علاقائی سلامتی کی بحث میں ایک نمایاں کردار دے دیا ہے۔
اسی تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ہونے والے دیگر اجلاسوں کا ایجنڈا بھی بدل گیا ہے، جہاں اب مشرقِ وسطیٰ کے رہنماؤں کی سفارت کاری غالب رہے گی، واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے باعث امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان طے شدہ ملاقات کا شیڈول تبدیل ہو سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق وائٹ ہاؤس اب بھی اس ملاقات میں دلچسپی رکھتا ہے، لیکن غزہ اور قطر میں بحران کے باعث توجہ کا رخ بدل سکتا ہے، صدر ٹرمپ کی اسرائیلی اور عرب رہنماؤں سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ 29 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے، جو جنرل اسمبلی کے بعد مشاورت کے سلسلے کی توسیع ہوگی۔
اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ شہباز-ٹرمپ ملاقات صرف جنرل اسمبلی کے موقع پر نیویارک میں ایک ضمنی ملاقات تک محدود رہے، تاہم سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ترجیحاً وائٹ ہاؤس میں باضابطہ ملاقات چاہتا ہے تاکہ دو طرفہ اور علاقائی امور پر تفصیلی بات چیت ہو سکے۔
چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر، جو اس سے پہلے صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر چکے ہیں، توقع ہے کہ وزیراعظم کے ہمراہ ہوں گے