
رواں ماہ وزیراعظم کے دورہ چین میں سی پیک فیز ٹو کا باضابطہ آغاز ہوگا، احسن اقبال
وزیر مںصوبہ بندی احسن اقبال نے گزشتہ روز جے سی سی اجلاس اور وزیراعظم کے دورہ چین کی تیاریوں کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کی
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کا آئندہ دورہ چین، جو اس ماہ کے آخر میں متوقع ہے، پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دوسرے مرحلے کے باضابطہ آغاز کا محرک ثابت ہوگا، صنعتی تعاون پر مرکوز یہ مرحلہ تقریباً 5 سال کی تاخیر کے بعد شروع کیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور سی پیک کے فوکل پرسن احسن اقبال نے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کہا کہ ’وزیرِاعظم کا آئندہ دورہ سی پیک فیز II کے باضابطہ آغاز کا سنگ میل ہوگا، دونوں فریق واضح ترجیحات طے کریں گے اور قابلِ پیمائش نتائج پر اتفاق کریں گے‘۔
یہ اجلاس جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی (جے سی سی) کے آئندہ اجلاس اور وزیرِاعظم کے بیجنگ کے مجوزہ دورے کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے بلایا گیا۔
ذرائع کے مطابق جے سی سی کا اجلاس اکتوبر میں متوقع ہے، تاہم وزیرِاعظم اس ماہ کے آخر میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس (31 اگست تا یکم ستمبر) میں شرکت کے لیے بیجنگ جائیں گے، اس موقع پر ان کی چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ملاقات متوقع ہے۔
وفاقی وزیر نے زور دیا کہ سی پیک کا مستقبل ’مقدار کے بجائے معیار پر مبنی ہونا چاہیے‘ اور صرف انہی منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہیے جو دیرپا اور اعلیٰ اثرات کے حامل ہوں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ اپنے حالیہ دورۂ چین کے دوران انہوں نے وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے صدر شی جن پنگ کو 2026 میں اسلام آباد آنے کی دعوت دی تاکہ پاک-چین سفارتی تعلقات کی 75ویں سالگرہ منائی جا سکے۔
انہوں نے چین میں پاکستان کی تجارت اور برآمدات کے فروغ پر زور دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ کاروباری افراد کے ویزا پراسیسنگ میں تاخیر کو فوری طور پر حل کیا جائے۔ مزید برآں، ایک نتیجہ خیز منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی گئی تاکہ برآمدات میں تنوع، صنعتی روابط میں اضافہ اور سی پیک کے تحت مارکیٹ تک رسائی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔
احسن اقبال نے چین کی جانب سے مختلف شعبوں میں پیش کی گئی 10 ہزار تربیتی اسکالرشپس کو بروئے کار لانے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ شفاف فریم ورک ضروری ہے تاکہ درست افراد کو ادارہ جاتی ضروریات کے مطابق تربیت دی جا سکے اور پاکستان کو دیرپا استعداد کار حاصل ہو۔
اجلاس میں ملتان-سکھر موٹروے، آئی ٹی گریجویٹس کی تربیت، مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے لیے کمپیوٹیشنل انفرااسٹرکچر، صنعتی منتقلی، انڈسٹریل پارکس، مائننگ، اسپیشل اکنامک زونز اور زراعت سمیت مختلف ترجیحی شعبوں میں پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔
فیصلہ کیا گیا کہ چین کی صنعتی منتقلی کے رجحانات پر ڈیٹا پر مبنی مطالعات کیے جائیں اور مارکیٹ کے ان شعبوں کی نشاندہی کی جائے جہاں پاکستان برآمدی صلاحیت رکھتا ہے۔
وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ چونکہ چین سالانہ 20 کھرب ڈالر سے زائد کی درآمدات کرتا ہے، پاکستان کو حکمتِ عملی کے تحت کم از کم 30 سے 50 ارب ڈالر کے حصے کا ہدف حاصل کرنا چاہیے، اس مقصد کے لیے اعلیٰ ممکنہ برآمدی شعبوں کی نشاندہی کر کے برآمدی سرپلس پیدا کرنے، پائیدار سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور درمیانی مدت میں زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کی ہدایت دی گئی۔
انہوں نے پالیسی کے تسلسل اور ادارہ جاتی اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صنعتی تعاون، ٹیکنالوجی، زراعت، توانائی اور ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ جیسے شعبوں میں نجی شعبے، جامعات اور تحقیقی اداروں کے ساتھ قریبی روابط قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
پیش گوئی کے مطابق مصنوعی ذہانت 2030 تک پاکستان کی معیشت میں 249 کھرب روپے (88.31 ارب ڈالر) کا حصہ ڈال سکتی ہے، جو 1710 کھرب روپے کے متوقع جی ڈی پی میں 14.56 فیصد اضافے کے برابر ہے۔
اے آئی کے ذریعے زراعت (جی ڈی پی کا 24 فیصد) میں 20 سے 30 فیصد تک پیداواری اضافہ ممکن ہے، جبکہ مینوفیکچرنگ اور مائننگ (جی ڈی پی کا 15.1 فیصد) میں آٹومیشن کے ذریعے 20 سے 25 فیصد بہتری آسکتی ہے۔ اسی طرح فِن ٹیک (2 فیصد) اور سافٹ ویئر انڈسٹری (1.5 فیصد) میں 20 سے 30 فیصد تک ترقی کا امکان ہے، جبکہ توانائی (3.8 فیصد)، دفاع (3.5 فیصد)، عدلیہ (ایک فیصد) اور بین الاقوامی تعاون (2 فیصد) میں بھی 10 سے 20 فیصد ترقی کی گنجائش موجود ہے