خوراک کی تقسیم کے مراکز یا مقتل گاہ؟ ’وہ روزانہ ایک بوری آٹے کے لیے گولیوں کی زد میں آتے ہیں‘
حیران کُن نہیں کہ جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے دانستہ طور پر غزہ کی جنگ (نسل کشی) کو طول دی ہے تاکہ وہ کرپشن کے الزامات پر پوچھ گچھ سے بچ سکیں اور اقتدار پر برقرار رہ سکیں۔
جو عنصر حیران کردینے والا ہے وہ یہ ہے کہ کیسے جہموری مغرب جن میں امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس قابلِ ذکر ہیں، جو کہتے ہیں کہ وہ ’قواعد پر مبنی عالمی نظام‘ پر یقین رکھتے ہیں، انہوں نے غیر مشروط طور پر نیتن یاہو کی حمایت کی اور عرب یا مسلم حکومتوں نے کس طرح اسرائیل کو ساز و سامان مہیا کرکے فلسطینیوں کے قتلِ عام میں شراکت کی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ غزہ میں اپنے طور پر کسی ’حتمی حل‘ پر عمل درآمد کیا جارہا ہے جہاں گھروں سے لے کر تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں تک تمام انفرااسٹرکچر کو تباہ کیا جا چکا ہے جبکہ پانی، بجلی، گیس اور سیوریج لائنز بھی تباہ ہوچکی ہیں جبکہ انفرااسٹرکچر کی تباہی کا یہ سلسلہ 22 ماہ پہلے ہونے والے حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اب تک جاری ہے کہ جس میں 800 اسرائیلی شہری اور 400 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے جبکہ کئی اسرائیلی شہریوں کو یرغمالی بنا لیا گیا تھا (یرغمالیوں کی تعداد تقریباً 50 بتائی جارہی ہے جن میں 20 زندہ ہیں) جن میں سے کچھ اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں۔
نیتن یاہو ایسے ایسے معاہدوں سے پیچھے ہٹے کہ جن کے نتیجے میں یرغمالیوں کی واپسی ممکن ہوسکتی اور وہ اپنے خاندانوں سے مل سکتے ہیں جبکہ اس کے بدلے میں اسرائیل کو ان ہزاروں فلسطینیوں کو رہا کرنا تھا کہ جو نسل پرست حکومت کی جانب سے حقیقی طور پر یرغمال ہیں۔ یہ فوجی عدالتوں کے ایسے نام نہاد انتظامی مقامات پر قید کیے گئے ہیں کہ جس کے حوالے سے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت کوئی قانونی جواز موجود نہیں۔
جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا ’غزہ ریورا‘ منصوبہ پیش کیا ہے اور نیتن یاہو نے پُرزور حمایت کی ہے کہ جس میں غزہ کے 20 لاکھ فلسطینیوں کو بےدخل کرنے کی بات کی گئی ہے، اسرائیل غزہ کی تباہی میں شدت لے کر آیا ہے اور اس نے وہاں 80 فیصد گھروں کو زمین بوس کیا ہے جبکہ اسرائیل نے غزہ کے بہت سے تعلیم یافتہ قابل اور بااثر لوگوں کو بھی نشانہ بنا کر شہید کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے جمعے کو امریکی ویب سائٹ ایکسیئوس (Axios) نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل کی خارجی سیکیورٹی سروس موساد کے سربراہ نے واشنگٹن پہنچ کر امریکا سے کہا کہ وہ انڈونیشیا، لیبیا اور ایتھوپیا پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ وہ ممکنہ نکبہ دوم کے نتیجے میں غزہ سے جبراً بےدخل ہونے والے فلسطینیوں کو اپنی زمین پر قبول کریں۔
یہ اقدام امریکا اور اسرائیل کی منافقت ہے جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’جبر‘ نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ ’رضاکارانہ‘ طور پر نقل مکانی کریں گے۔ جی یہ منافقانہ ہے کیونکہ جب 58 ہزار افراد جن میں 15 ہزار 500 بچے اور بڑی تعداد میں نہتی خواتین شامل ہیں، شہید کردیے جائیں اور نسل کشی کرنے والی اسرائیلی حکومت ہر بنیادی انفرااسٹرکچر کو تباہ کردے جو ’زندگی‘ کو فعال یا معاون بناتا ہے، تو ایسے میں کیا کچھ بھی ’رضاکارانہ‘ رہ جائے گا؟ یہ نسل کشی ہے۔
برطانیہ کے ایک نامور ٹراما سینٹر میں کام کرنے والے ایک نوجوان ڈاکٹر نے گزشتہ ہفتے مجھے بتایا تھا کہ اس کے تین ساتھی جو غزہ میں کام کرتے ہیں اور رضاکارانہ بنیادوں پر انسانی جانیں بچاتے ہیں، نے ایک ہولناک تجربہ بیان کیا۔ یہ رضاکار جہاں بھی جاتے ہیں اپنے ذاتی سیٹلائٹ شناخت کنندگان کو اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں جوکہ ایک سگنل دیتا ہے اور یہ ان کی درست لوکیشن کی نشاندہی کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج ان سگنلز کی نگرانی کرتی ہیں۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے ساتھیوں نے انہیں بتایا ہے کہ ایک دن انہوں نے غزہ کے ہسپتال میں ایمرجنسی آپریشنز میں 12 گھنٹے تک لگاتار کام کیا اور اپنا کام ختم کرنے کے بعد وہ ساتھ نکلے۔ تقریباً نصف گھنٹے بعد ہسپتال پر بمباری ہوئی۔
قابض افواج غزہ میں کام کرنے والے مغربی رضاکاروں کو ہلاک کرنے سے بہ ظاہر گریز کرتی ہیں لیکن یہ فلسطین کے صحت عامہ کے عملے بشمول ڈاکٹرز کو نشانہ بنانے میں کوئی تردد نہیں برتتیں۔ ان کا قتل عام ’معمول‘ بن چکا ہے بالکل اسی طرح کہ جس طرح کم عمر بچوں کا قتل اور انہیں مفلوج کرنا ان کے لیے عام سی بات ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے جیسے وہ انسانوں سے کم تر ہیں۔
ان کے بڑے پیمانے پر قتل اور ان کے گھروں اور تمام انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنے کے بعد اب ان کے خلاف حتمی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھوک اور افلاس۔ امریکا میں قائم تنظیم غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن نے اپنے کرائے کے فوجیوں اور اسرائیلی قابض افواج کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے غزہ میں قتل و غارت کا نیا محاذ تیار کیا ہے۔
’خوراک‘ تقسیم کرنے کے مراکز کو وہ تباہی کے جال کے طور پر استعمال کررہے ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر بھوک سے بےحال درجنوں فلسطینی خودکار گولیوں کی زد میں آ کر شہید ہو رہے ہیں۔ ’ہم اپنی اقدار کی پاسداری کرتے ہیں‘، کہنے والے مغرب کو اس میں کچھ بھی غلط نظر نہیں آتا۔
حتیٰ کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں انروا (UNRWA) نے ایک ٹویٹ میں درخواست کی کہ اس کے پاس غزہ کی تین ماہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خوراک کا ذخیرہ موجود ہے اور حکام سے التجا کی کہ وہ غزہ (جوکہ موت، تباہی اور بربادی کی جیل سے زیادہ نہیں) کے دروازے کھول دیں تاکہ وہ بھوک سے پریشان اور مایوس فلسطینیوں تک امدادی سامان پہنچا سکیں جو روزانہ اپنے خاندانوں کے لیے ایک بوری آٹا لانے کے لیے گولیوں کا نشانہ بننے کا خطرہ مول لیتے ہیں۔
گزشتہ 100 سالوں میں ہولوکاسٹ انسانیت کے خلاف بدترین جرائم میں سے ایک تھا۔ دنیا جس نے کہا تھا کہ ’دوبارہ کبھی نہیں‘، غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اسے نظرانداز کررہی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیوں؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آیا مغربی ممالک یا علاقائی آمر نیتن یاہو کے فلسطینیوں کو ’عمالک‘ کہنے سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں (اصطلاح جو بائبل میں ایسی برائی کے لیے استعمال ہوئی ہے جسے ختم کرنا ضروری ہے)۔
جو اہم ہے وہ اسرائیلی حکومت کو ہتھیار، رقم اور مکمل مدد فراہم کرتے رہنا ہے جس پر اب نسل کشی کا الزام لگایا جا رہا ہے، حتیٰ کہ قابل احترام یہودی نسل کشی کے ماہرین بھی غزہ میں نسل کشی کا اعتراف کررہے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک اس اعتراف سے کتراتے تھے۔
اپنی پالیسیز پر نظر ثانی کرنے کے بجائے جس نے ’قواعد پر مبنی نظام‘ کی حمایت کرنے کے ان کے دعوے کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، امریکا اور اس کے یورپی شراکت دار جیسے برطانیہ، فرانس اور جرمنی، اپنے ہی شہریوں کے خلاف ہی مقدمہ چلا رہے ہیں جو غزہ میں نسل کشی اور جنگی جرائم کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہودیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جارہا ہے جن میں ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والے افراد اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں اور انہیں صرف اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ خاموش رہنے سے انکاری ہیں۔
اس انتہائی افسوس ناک پس منظر میں ایک مدھم سی امید ہے کہ بنیامن نیتن یاہو 28 جولائی کے انتظار کررہے ہیں کہ جب وہ اپنی ذات پر بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے شاید امن معاہدہ کرسکتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ جب اسرائیلی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ تقریباً 3 ماہ کی رخصت پر جارہی ہے۔
یہ گمان اس لیے کیا جارہا ہے کیونکہ امن معاہدہ کرنے کی صورت میں ان کے انتہائی دائیں بازو (کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ بی بی جیسے انتہائی دائیں بازو کے رہنما سے بھی زیادہ دائیں بازو کے لوگ اسرائیل میں موجود ہیں؟) کے اتحادی شراکت دار ان کی حکومت کو گرا نہیں سکتے اور سپریم کورٹ بھی ان کے خلاف کرپشن کے الزامات پر مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتی۔ اس نقطہ نظر کے مطابق امن معاہدے کے بعد انتخابات ہوں گے جن کے نتیجے میں نیتن یاہو کو یقین ہے کہ وہ جیت سکتے ہیں۔ اسے تنکے کا سہارا لینا کہہ سکتے ہیں لیکن ابھی لوگوں کو اس سے زیادہ بھلا کیا امید ہوسکتی ہے؟








































