بھاری جرمانوں پر عوامی ردعمل کے بعد حکومت سندھ کا ای چالان کی رقم میں کمی پر غور
حال ہی میں متعارف کرائے گئے ای ٹکٹنگ نظام خصوصاً بھاری جرمانوں اور ناکافی سڑکوں کے انفرااسٹرکچر پر عوامی ردعمل کے بعد حکومت سندھ مختلف خلاف ورزیوں پر چالان کی رقم کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
27 اکتوبر کو وزیر اعلیٰ سندھ نے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ’ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم‘ (ٹریکس) کا افتتاح کیا تھا، اور صرف ایک ہفتے کے اندر ٹریفک پولیس نے سیٹ بیلٹ نہ باندھنے، کالے شیشوں بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے سمیت مختلف خلاف ورزیوں پر گاڑیوں کے رجسٹرڈ مالکان کو تقریباً 30 ہزار چالان بھیجے، جن کی مجموعی مالیت لاکھوں روپے تھی۔
شہریوں اور سیاسی جماعتوں نے پیپلز پارٹی کی زیر قیادت سندھ حکومت اور پولیس پر تنقید کی ہے کہ بھاری جرمانے محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بنائے گئے ہیں۔
کم از کم 3 درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی جا چکی ہیں اور ان میں سے دو پر عدالت نے حکومت اور پولیس کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
اس کے باوجود بعض حلقوں نے اعتراف کیا ہے کہ ای ٹکٹنگ کے بعد گاڑیاں ٹریفک سگنل پر مقررہ جگہ پر رکنے لگی ہیں اور موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہننے لگے ہیں۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکمران جماعت کے کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور بعض اعلیٰ پولیس افسران نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ ایک اچھے اقدام کو بعض سیاسی حلقوں نے اپنے مفاد کے لیے متنازع بنا دیا ہے کیونکہ ’کچھ خلاف ورزیوں پر جرمانے بہت زیادہ ہیں‘۔
ان کی تجویز تھی کہ صوبائی حکومت تنقید کم کرنے کے لیے جرمانوں میں کمی کر سکتی ہے یا انہیں ایک مقررہ مدت کے لیے ’معقول‘ سطح پر لا سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت اور پولیس کے اندر یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ صرف جرمانے لگانے سے ٹریفک کے کلچر میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی، اس کے لیے شہری اداروں اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کو شامل کر کے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔
جب آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے پوچھا گیا کہ کیا اس نظام کی کامیابی مختلف اداروں کے باہمی تعاون پر منحصر ہے تو انہوں نے کہا کہ ’بالکل، ٹریکس کی طویل مدتی کامیابی ٹریفک پولیس، مقامی انتظامیہ، ایکسائز ڈیپارٹمنٹ، ٹی ایم سی، کے ایم سی اور دیگر شہری اداروں کے قریبی اشتراک پر منحصر ہے‘۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’جرمانوں کا اسٹرکچر شہریوں کی آمدنی کے لحاظ سے نہیں بلکہ قانون شکنی سے باز رکھنے اور روڈ سیفٹی کو مدِنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے، ٹریفک جرمانے کوئی ناگزیر بوجھ نہیں، بلکہ انہیں ذمہ دارانہ ڈرائیونگ سے آسانی سے روکا جا سکتا ہے، مقصد آمدنی نہیں بلکہ نظم و ضبط، قانون کی پاسداری اور سڑکوں پر حفاظت کا کلچر فروغ دینا ہے‘۔
ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار اور پیپلز پارٹی کے رہنما نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ ’پہلی بار‘ خلاف ورزی کرنے والے افراد 10 دن کے اندر ذاتی طور پر معافی نامہ جمع کرا کے جرمانہ ختم کروا سکتے ہیں، تاہم امکان ہے کہ حکومت اس ماہ کے آخر تک بعض خلاف ورزیوں پر جرمانے میں واضح کمی کا اعلان کرے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ نظام کو ختم یا معطل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے پورے کراچی اور بعد ازاں صوبے کے دیگر اضلاع تک وسعت دی جائے گی۔
پریشانی گاڑیاں فروخت کرنے والے مالکان کیلئے ہے
فی الحال اگر کسی گاڑی کا رجسٹرڈ مالک اسے بیچ چکا ہو مگر خریدار نے اپنے نام منتقل نہ کرائی ہو تو ای ٹکٹ اسی سابقہ مالک کو ملتا ہے، اس صورت میں مالک کو ایکسائز اور پولیس دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ گاڑی اب اس کی نہیں۔
اسی طرح جب کسی خلاف ورزی پر چالان جاری ہوتا ہے تو ’ڈی میرٹ پوائنٹس‘ بھی رجسٹرڈ مالک کے نام پر لگ جاتے ہیں، چاہے گاڑی اس وقت کوئی اور چلا رہا ہو، مالک کو اصل ڈرائیور کو ساتھ لے جا کر ٹریفک آفس میں وضاحت دینا پڑتی ہے، جس کے بعد چالان نئے نام پر منتقل کیا جاتا ہے۔
آئی جی سندھ کے مطابق موٹر وہیکل آرڈیننس کے تحت جب تک گاڑی کی ملکیت باضابطہ طور پر منتقل نہ ہو، اس کی قانونی ذمہ داری رجسٹرڈ مالک ہی پر رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ٹریکس سسٹم وہی ڈیٹا استعمال کرتا ہے جو ایکسائز ریکارڈ میں موجود ہے، اگر گاڑی بیچی گئی ہے لیکن نام منتقل نہیں ہوا تو چالان پرانے مالک کے خلاف ہی جاری ہوگا‘۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ ایسے تمام معاملات شہری ’سہولت مراکز‘ پر حل کر سکتے ہیں، سابق مالک کو صرف فروخت کا ثبوت اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کا تصدیقی خط دینا ہوگا، جس کے بعد ای ٹکٹ فوراً منسوخ کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایسی گاڑیوں کو سسٹم میں ’بلیک لسٹ‘ کر دیا جائے گا، اور جب بھی وہ سیف سٹی کیمروں میں نظر آئیں گی تو ایکسائز ڈیپارٹمنٹ انہیں ضبط کر لے گا اور تب تک نہیں چھوڑے گا جب تک نئی ملکیت باضابطہ طور پر منتقل نہ ہو جائے۔
ڈی میرٹ پوائنٹس کے معاملے میں آئی جی نے بتایا کہ مالک کو صرف متعلقہ ڈرائیور کے ساتھ سہولت مرکز جا کر وضاحت دینا ہوگی، اور تصدیق کے بعد پوائنٹس مالک کے لائسنس سے ہٹا کر اصل خلاف ورزی کرنے والے کے نام منتقل کر دیے جائیں گے۔
بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں کی چھوٹ
جہاں قانون کی پابندی کرنے والے شہری معمولی خلاف ورزی پر چالانوں کا سامنا کر رہے ہیں، وہیں ’اے ایف آر‘ (اپلائیڈ فار رجسٹریشن) یا بغیر نمبر پلیٹ گاڑیاں بدستور آزادانہ گھوم رہی ہیں کیونکہ نظام ایسی گاڑیوں کی شناخت کرنے سے قاصر ہے۔
اس بارے میں پوچھے جانے پر آئی جی غلام نبی میمن نے بتایا کہ ’ٹریکس نظام صرف نمبر پلیٹ کے ذریعے گاڑیوں کی شناخت کرتا ہے، لہٰذا بغیر نمبر پلیٹ یا اے ایف آر پلیٹ والی گاڑیوں کو خودکار ای ٹکٹ جاری نہیں ہو سکتے‘۔
البتہ انہوں نے کہا کہ ’ایسی گاڑیوں کے خلاف زمینی کارروائی جاری ہے، تمام گاڑیاں جن پر درست نمبر پلیٹ نہیں ہوتی، موقع پر ضبط کر کے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دی جاتی ہیں، پولیس کے ساتھ ایکسائز ٹیمیں مشترکہ کارروائیاں کرتی ہیں، اور قانون کے مطابق خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں







































