باجوڑ میں آپریشن کے خدشے پر لوئی ماموند کے مکینوں کی محفوظ مقام پر نقل مکانی جاری
این جی اوز کا کہنا ہے کہ ہفتے سے اب تک تقریباً 2 ہزار خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔
باجوڑ کی تحصیل لوئی ماموند کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے خدشے پر اپنے گھروں کو چھوڑ چکے ہیں، اتوار کو مسلسل دوسرے روز بھی رہائشیوں کی محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی جاری رہی۔
مقامی رہائشیوں اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے رضاکاروں نے بتایا کہ لوئی ماموند کے علاقوں ترخو، ایرب، گٹ، آگرہ، خورچائی، دوگئی، کالان، لغڑئی، کٹکوٹ، گیلئی، نختار، زرئی، دمبرئی، امانتو اور زگئی سے رہائشیوں کی نقل مکانی ہفتے کو شروع ہو گئی تھی۔
نقل مکانی کا عمل اس وقت شروع ہوا، جب جمعے کو مقامی شدت پسندوں اور باجوڑ امن جرگے کے درمیان شدت پسندوں کو واپس افغانستان بھیجنے کے حوالے سے حتمی اجلاس میں بات چیت ناکام ہو گئی تھی۔
تاہم مقامی افراد کے مطابق ہفتہ کی رات باجوڑ امن جرگہ کے ارکان کی جانب سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کے بعد اتوار کو ان علاقوں سے مختلف مقامات، زیادہ تر ضلع کے اندر، لوگوں کی نقل مکانی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
الخدمت فاؤنڈیشن کے سینئر رضاکار ثنا اللہ نے کہا کہ ماموند تحصیل کے 16 علاقوں کو ملانے والی سڑکیں اور راستے دن بھر اُن گاڑیوں سے بھری رہیں جو رہائشیوں اور اُن کے سامان کو محفوظ مقامات تک لے جا رہی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق ماموند تحصیل کے علاقوںدمادولہ، مٹو، انعام کھورو چناگی کے لوگ بھی اتوار کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے۔
زیادہ تر رہائشیوں نے شکایت کی کہ حکومت نے انہیں ٹرانسپورٹ فراہم کی نہ ہی رہائش دی گئی، ہم توقع رکھتے تھے کہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ ہمیں اس مشکل وقت میں مفت ٹرانسپورٹ فراہم کرے گی، مگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی۔
کچھ نقل مکانی کرنے والے رہائشیوں نے یہ بھی شکایت کی کہ ٹرانسپورٹروں نے ان سے معمول سے کہیں زیادہ کرایہ وصول کیا۔
حیدر خان نے کہا کہ ایک ڈرائیور نے انعام کھورو چناگی سے خار تحصیل کے شیخ کلی تک سفر کے لیے 20 ہزار روپے مانگے، جو معمول کے کرایے سے 16 ہزار روپے زیادہ ہیں۔
گزشتہ 2 دن میں اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی کوئی سرکاری گنتی نہیں ہے، لیکن این جی اوز کا کہنا ہے کہ ہفتے سے اب تک تقریباً 2 ہزار خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تقریباً ایک ہزار خاندانوں نے ان کے ریلیف کیمپوں میں رجسٹریشن کرائی ہے، جب کہ اتنی ہی تعداد میں خاندانوں نے بغیر رجسٹریشن کے دیگر مقامات پر پناہ لی ہے۔
ضلعی انتظامیہ اور این جی اوز کے ذرائع نے بتایا کہ زیادہ تر نقل مکانی کرنے والے ضلع کے اندر ہی منتقل ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ نے گھروں، تعلیمی اداروں اور سرکاری عمارتوں میں پناہ لی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ 107 تعلیمی اداروں (جن میں زیادہ تر خار تحصیل میں ہیں) کو بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہوں کے طور پر مختص کیا گیا ہے، جہاں بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
اس دوران، ضلعی انتظامیہ نے بے گھر افراد کو بنیادی سہولیات کے ساتھ ٹھہرانے کے انتظامات کیے۔
ایک بیان کے مطابق یہ انتظامات خار میں ضلعی انتظامیہ کے سینئر حکام اور این جی اوز کے نمائندوں کے اجلاس کے دوران حتمی شکل دیے گئے، بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کی صدارت اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر صادق علی نے کی۔
مزید کہا گیا کہ اجلاس کے شرکا کو ضروری ہدایات جاری کی گئیں، شرکا کو کہا گیا کہ بے گھر خاندانوں کو مناسب انتظامات کے ساتھ ان کے رشتہ داروں، سرکاری سہولیات، نجی اسکولوں اور اسپورٹس اسٹیڈیم میں ٹھہرایا جائے۔
اجلاس میں این جی اوز کے سربراہان سے کہا گیا کہ وہ مختلف علاقوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کے لیے رابطہ کاری کو مزید مضبوط کریں۔
اجلاس میں ضلعی محکمہ تعلیم کے افسران، کالجز کے پرنسپلز اور نجی اسکولوں کے مالکان کو ہدایت کی گئی کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو ترجیحی بنیادوں پر سنبھالا جائے