
امریکی امیگریشن جج کا فلسطین کے حامی کارکن محمود خلیل کی ملک بدری کا حکم
محمود خلیل نے کہا کہ جب ملک بدری کیپہلی کوشش ناکام ہونے لگی تو بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزامات گھڑ لیے گئے۔
امریکی امیگریشن جج نے فلسطین کے حامی کارکن محمود خلیل کی ملک بدری کا حکم دے دیا ہے، انہیں یا تو الجزائر یا شام بھیجا جا سکتا ہے، یہ فیصلہ ان الزامات کے بعد آیا ہے کہ انہوں نے گرین کارڈ کی درخواست میں معلومات چھپائی تھیں۔
بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق لوزیانا میں تعینات جج جیمی کومانز نے کہا کہ محمود خلیل نے امیگریشن کے عمل کو بائی پاس کرنے کے مقصد سے جان بوجھ کر حقائق کو غلط طور پر پیش کیا۔
امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کو جاری بیان میں محمود خلیل نے کہا کہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میری آزادی اظہار کی وجہ سے مجھ سے انتقام جاری رکھے ہوئے ہے۔
محمود خلیل فلسطینی نژاد ہیں، اور امریکا میں مستقل رہائش رکھتے ہیں، وہ 2024 کی غزہ جنگ کے دوران کولمبیا یونیورسٹی میں ہونے والے مظاہروں میں ایک نمایاں شخصیت تھے، جہاں وہ زیرِ تعلیم بھی رہے تھے۔
محمود خلیل کے وکلا نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے اور یہ بھی کہا کہ وفاقی عدالت کے الگ احکامات بدستور موجود ہیں، جو حکومت کو ان کی ملک بدری یا حراست سے روکتے ہیں۔
مارچ میں امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) حکام نے انہیں اس وقت حراست میں لیا جب ٹرمپ انتظامیہ نے ان یونیورسٹیوں پر کریک ڈاؤن شروع کیا، جن پر الزام ہے کہ وہ یہود دشمنی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں۔
شام میں پیدا ہونے والے اور الجزائر کی شہریت رکھنے والے محمود خلیل کو 3 ماہ تک لوزیانا کی امیگریشن سہولت میں رکھا گیا، اس سے پہلے کہ ایک وفاقی جج نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ وہ نہ تو فرار ہونے کے خطرے میں ہیں اور نہ ہی اپنی برادری کے لیے خطرہ ہیں۔
20 جون کو جج نے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا، حراست کے دوران، مسٹر خلیل کی امریکی نژاد اہلیہ نے ان کے بیٹے کو بھی جنم دیا تھا۔
مارچ میں امریکی حکومت نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ مسٹر خلیل نے اپنی امیگریشن دستاویزات میں اپنی سابقہ وابستگیوں کی تفصیلات چھپائیں، جن میں ان کی اقوام متحدہ کی فلسطینی ریلیف ایجنسی (انروا) کی رکنیت اور بیروت میں برطانوی سفارت خانے میں مسلسل ملازمت شامل تھی۔
تازہ فیصلے کے ردِعمل میں محمود خلیل نے کہا کہ جب ان کی پہلی کوشش ملک بدری میں ناکام ہونے لگی تو انہوں نے بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزامات گھڑ لیے، تاکہ مجھے خاموش کرا سکیں کیوں کہ میں فلسطین کے ساتھ کھڑا ہوں اور جاری نسل کشی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہوں۔
جون میں، محمود خلیل کے وکلا نے 2 کروڑ ڈالر (14.7 ملین پاؤنڈ) ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا، جس میں جھوٹی قید، بدنیتی پر مبنی مقدمہ اور یہودی دشمنی کے جھوٹے الزامات شامل تھے۔
ٹرمپ بارہا الزام لگا چکے ہیں کہ فلسطین کے حامی کارکنان (جن میں مسٹر خلیل بھی شامل ہیں) حماس کی حمایت کرتے ہیں، حماس کو امریکا دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے، صدر کا کہنا ہے کہ ان مظاہرین کو ملک بدر کر دینا چاہیے اور انہوں نے مسٹر خلیل کی گرفتاری کو پہلی مثال قرار دیا تھا۔
کولمبیا یونیورسٹی میں 2024 کے احتجاج میں محمود خلیل کا کردار انہیں منظرِ عام پر لے آیا تھا، مذاکرات کے اگلے مورچوں پر وہ یونیورسٹی کے حکام اور مظاہرین و طلبہ کے درمیان ثالثی میں شامل رہے تھے۔
اسرائیل کے حامی کارکنوں نے محمود خلیل پر الزام لگایا تھا کہ وہ کولمبیا یونیورسٹی اپارتھائیڈ ڈائیوسٹ (سی یو اے ڈی) کے رہنما تھے، ایک طلبہ گروپ جو یونیورسٹی سے اسرائیل کے ساتھ مالی تعلقات ختم کرنے اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا تھا۔
تاہم، محمود خلیل نے اس الزام کی تردید کی اور ایسوسی ایٹڈ پریس () کو بتایا تھا کہ وہ صرف مظاہرین کے ترجمان اور یونیورسٹی کے ساتھ ثالثی کرنے والے کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے