
اسلام آباد ہائی کورٹ کے نئے قواعد پر ججز کا اختلاف، انتظامیہ کا سب کی شمولیت کا دعویٰ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے نئے قواعد کی منظوری پر ججز کے درمیان اختلافات سامنے آگئے ہیں، جبکہ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ تمام ججز کو اس عمل میں شامل کیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے پانچ ججز نے نئے عدالتی قواعد کی جلد بازی میں منظوری پر اپنے اعتراضات حتمی شکل دے دیے ہیں اور کہا ہے کہ اس میں بامعنی مشاورت شامل نہیں تھی۔
تاہم، آئی ایچ سی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ رولز بنانے کے عمل میں تمام ججز کو کئی ماہ قبل ہی شامل کرلیا گیا تھا، جب کہ فل کورٹ میٹنگ بعد میں بلائی گئی۔
ہائی کورٹ اسٹیبلشمنٹ (اپائنٹمنٹ اینڈ کنڈیشنز آف سروس) رولز 2025 کو حالیہ فل کورٹ میٹنگ میں محض ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کیا گیا، جس میں 11 میں سے 6 ججز نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز وہ پانچ سینئر ججز ہیں جنہوں نے اس اقدام کی مخالفت کی اور ترامیم کا مطالبہ کیا، یہ سب اپنے اختلافی نوٹ جمع کرائیں گے۔
نئے قواعد کے مطابق چیف جسٹس کو زیادہ اختیارات مل گئے ہیں، اب وہ اپنی مرضی سے کسی بھی جج کو ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں شامل کرسکتے ہیں، جب کہ سینئر جج کو لازمی رکن رکھنے کی شرط بھی ختم کردی گئی ہے۔
اختیارات کا غلط استعمال
فل کورٹ میٹنگ سے ایک روز قبل جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے اپنے ساتھی ججز کو خط لکھ کر خدشات ظاہر کیے کہ انتظامی اختیارات کو مبینہ طور پر مخالف ججز کو نظرانداز کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بعد ازاں انہوں نے اجلاس میں رولز پیش کرنے کے طریقہ کار پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ مناسب جانچ پڑتال کے لیے ناکافی وقت دیا گیا۔
جسٹس اعجاز کے مطابق نئے پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز (پی پی آر) کو باضابطہ طور پر نوٹیفائی کردیا گیا، حالانکہ فل کورٹ میں نہ تو اس پر بامعنی بحث ہوئی اور نہ ہی منظوری دی گئی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ 600 سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مسودہ اجلاس سے صرف ڈیڑھ دن پہلے تقسیم کیا گیا، جس کی وجہ سے مشاورت محض ایک رسمی کارروائی رہ گئی اور بامعنی تجاویز دینا ممکن نہ رہا۔
تاہم، ایک سینئر آئی ایچ سی اہلکار نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ رولز بنانے کے عمل میں ہر جج کو مکمل طور پر شامل کیا گیا تھا۔
انہوں نے ایک آفس آرڈر کا حوالہ دیا جو 12 جون 2019 کو اُس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جاری کیا تھا، جس کے تحت لاہور ہائی کورٹ کے طرز پر رولز بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی اور اس کمیٹی میں ایڈیشنل رجسٹرار اعجاز احمد اور سلامت اللہ شامل تھے۔
تمام ججز کی رائے طلب کی گئی
اس اہلکار کے مطابق ڈرافٹ رولز اجلاس سے کئی ماہ پہلے تمام ججز میں تقسیم کردیے گئے تھے اور ان کی رائے طلب کی گئی تھی، ان کے بقول جسٹس ستار کے سوا کسی بھی جج نے تجاویز نہیں دیں۔
تاہم، جسٹس ستار کی جانب سے دی گئی سفارشات اُس وقت کے چیف جسٹس نے مسترد کردیں کیونکہ وہ بظاہر ججز کو ازخود نوٹس کا اختیار دینے کے مترادف لگ رہی تھیں، البتہ ایک اختلافی جج نے دعویٰ کیا کہ فل کورٹ میٹنگ میں پیش کیے گئے قواعد اُس ورژن سے مختلف تھے جو پہلے تقسیم کیا گیا تھا۔
ایڈمنسٹریشن کمیٹی
ان تبدیلیوں کا دفاع کرتے ہوئے اہلکار نے کہا کہ صرف معمولی ردوبدل کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر رول 237 اب یہ فراہم کرتا ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں ایڈمنسٹریشن کمیٹی عام طور پر تین ججز پر مشتمل ہوگی، تاہم چیف جسٹس ضرورت کے تحت مزید اراکین نامزد کرسکتے ہیں۔
اسی طرح رول 239 کے تحت ہر رکن ایڈمنسٹریشن جج ہوگا اور اس کے اختیارات و ذمہ داریاں چیف جسٹس وقتاً فوقتاً طے کریں گے۔
ماضی میں سینئر پویسنی جج خود بخود ایڈمنسٹریشن جج ہوتا تھا اور اسے عدالتی امور پر نمایاں اختیار حاصل ہوتا تھا، مگر نئے نظام کے تحت چیف جسٹس کو مکمل اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ کس جج کو انتظامی امور تفویض کریں، اس سے عملی طور پر جسٹس کیانی کا کردار محدود ہوگیا ہے۔
جسٹس ستار اور جسٹس اعجاز نے مبینہ طور پر کیسز کی تقسیم کے طریقہ کار پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ یہ عمل اس طرح بدلا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے ساتھ ٹرانسفر ہوکر آنے والے ججز کو فائدہ پہنچے اور مستقل ججز کو نظرانداز کیا جائے جنہوں نے ان کے ٹرانسفر کی مخالفت کی تھی۔
اسپیشل بینچ
انہوں نے خاص طور پر ٹیکس کیسز کے بیک لاگ ختم کرنے کے لیے بنائے گئے اسپیشل بینچ کا حوالہ دیا، جس پر دونوں اختلافی ججز کو بٹھایا گیا اور روزانہ صبح 9 بجے سے شام تک 200 سے زائد ٹیکس ریفرنسز سننے کے لیے مقرر کیا گیا، ان کے زیر سماعت مقدمات دوسرے ججز کو منتقل کردیے گئے۔
دوسری جانب آئی ایچ سی اہلکار نے ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی خصوصی بینچ سینئر ججز کو ہی دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے پرنسپل سیٹ پر روستر آف سٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس جاوید اقبال وینز ٹیکس اور کمرشل کیسز کے بینچ پر بیٹھتے ہیں اور پیر سے جمعہ تک فل ٹائم ایسے ہی مقدمات سنتے ہیں