اسلام آباد ہائیکورٹ: بلدیاتی الیکشن اور سی ڈی اے کو تحلیل کرنے سے متعلق سنگل بینچ کا فیصلہ معطل
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے بلدیاتی الیکشن اور سی ڈی اے کو تحلیل کرنے سے متعلق سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کردیا۔
جسٹس ارباب اور جسٹس انعام پر مشتمل ڈویژن بینچ نے انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی، جسٹس محسن اختر کیانی نے سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا حکم جاری کیا تھا جبکہ سی ڈی اے نے ادارے کو تحلیل کرنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔
سی ڈی اے کی جانب سے کاشف علی ملک ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے استفسار کیا کہ جس کیس میں سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا آرڈر جاری ہوا اس میں استدعا کیا تھی؟
فریقین کے وکلا کے موقف اپنایا کہ ہماری درخواست میں رائٹ آف وے چارجز ختم کرنے کی استدعا گئی تھی، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کے فیصلے کا دفاع کریں گے؟ فریقین کے وکلا نے کہاکہ سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کی استدعا کی تھی، نا اس فیصلے کا دفاع کریں گے۔
عدالت نے وکلا کا موقف سننے کے بعد بلدیاتی الیکشن اور سی ڈی اے کو تحلیل کرنے سے متعلق سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کر دیا۔
یاد رہے کہ رواں سال جون میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے 2 رٹ پٹیشنز پر سماعت کی تھی، جن میں 2015 میں جاری کردہ سی ڈی اے کے ایک سٹیچوری ریگولیٹری آرڈر ( ایس آر او) کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں اسلام آباد کی مرکزی شاہراہوں پر واقع پٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز پر رائٹ آف وے چارجز (بڑی شاہراہوں سے براہِ راست رسائی) عائد کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ سی ڈی اے 1960 میں قائم کی گئی ایک شہری تنظیم ہے جسے وفاقی دارالحکومت کی ترقی کا کام سونپا گیا تھا، سی ڈی اے کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق ادارہ شہر کی پائیدار ترقی اور انتظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی ڈی اے نے درخواست گزاروں سے چارجز کی مد میں 33 کروڑ 74 لاکھ 42 ہزار 856 روپے وصول کیے، ایس آر او کا اجرا ایک غیر قانونی عمل ہے اور آئین کے آرٹیکل 77 کے خلاف ہے، جو یہ کہتا ہے کہ ٹیکس لگانے کے اختیارات صرف پارلیمنٹ کی منظوری سے ہو سکتے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بنیادی طور پر سی ڈی اے کی طرف سے براہِ راست ٹیکس یا ڈائریکٹ ایکسس چارجز کا نفاذ سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کے تحت میونسپل فرائض کی بنیاد پر لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کی دفعات 88، 89، اور 90 کو نظرانداز کرتے ہوئے عائد کیے گئے جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وقت آ چکا ہے کہ وفاقی حکومت سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کی شق 52 کے تحت اتھارٹی کے کام کو ختم کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے اور ادارے کو باضابطہ طور پر تحلیل کرے کیونکہ سی ڈی اے کا اصل مقصد اب مکمل ہو چکا ہے۔
عدالت نے کہا تھا کہ اسلام آباد کا انتظام اور شہری نظامِ حکومت اب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے تحت چلایا جا رہا ہے، جو کہ ایک خصوصی قانون سازی ہے جس کا مقصد منتخب نمائندوں کے ذریعے مقامی حکومت کو چلانا ہے۔
عدالت نے دونوں رٹ پٹیشنز کو منظور کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ایس آر او غیر قانونی اور قانونی اختیار یا دائرہ اختیار کے بغیر جاری کیے گئے تھے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ سی ڈے اے کو تحلیل کرنے اور اس کے تمام اختیارات، اثاثے اور فرائض ایم سی آئی کو منتقل کرنے کا عمل فوری طور پر شروع اور مکمل کرے۔
عدالتی حکم میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ تبدیلی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کو شفاف، جوابدے اور قانونی شہری نظام کے تحت چلایا جائے اور اس کے باسیوں کے حقوق قانون کے مطابق محفوظ رہیں۔
خیال رہے کہ رواں سال جون کے آغاز میں شدید عوامی تنقید سامنے آنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے سی ڈی اے کی جانب سے بسوں کے کرائے میں اضافہ واپس لینے کا حکم دیا تھا۔
جبکہ اسی مہینے اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے کو رجسٹرڈ ریڑھی بانوں کو مخصوص جگہیں فراہم نہ کرنے پر تنقید کی تھی اور اس مسئلے کو شہر کے غریب محنت کش طبقے کے وقار اور بقا کا معاملہ قرار دیا تھا







































