
اسرائیل نے ٹرمپ کا مطالبہ نظر انداز کر دیا، بمباری جاری، مزید 7 فلسطینی شہید
اکتوبر 2023 سے اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ میں 66 ہزار 288 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں
اسرائیل نے غزہ پر بمباری روکنے کے امریکی صدر ٹرمپ کے مطالبے کے بعد مزید 7 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق امریکی صدر کے بمباری روکنے کے بعد سے اب تک مزید 7 فلسطینی اسرائیلی توپ خانے کی گولا باری اور دیگر حملوں میں جان کی بازی ہار گئے ہیں۔
حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کا جواب پیش کر دیا ہے، جس میں گروپ نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ غزہ کی انتظامیہ کو فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے حوالے کر دے گا اور تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
فلسطینی گروپ کے جواب میں اس کے ہتھیار ڈالنے (غیر مسلح ہونے) کے اہم مسئلے کا ذکر نہیں کیا گیا، لیکن اس نے کہا کہ وہ ثالثوں کے ذریعے فوری طور پر امن مذاکرات میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے۔
حماس کے بیان کے بعد ایک ویڈیو خطاب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ حماس دائمی امن کے لیے تیار ہے، اور انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کرے۔
تاہم، اسرائیل نے اپنی مہلک بمباری جاری رکھی، جس میں اب تک کم از کم سات فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
اکتوبر 2023 میں اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ میں اب تک کم از کم 66 ہزار 288 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 69 ہزار 165 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد مارے گئے تھے اور تقریباً 200 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اسرائیل کی پیدا کردہ بھوک کے باعث 2 بچوں کی موت
الجزیرہ کو زمینی ذرائع نے اطلاع دی کہ غزہ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بھوک اور غذائی قلت کے سبب مزید 2 بچوں کی اموات رپورٹ کی گئی ہیں۔
ان اموات کے بعد اسرائیل کی جانب سے پیدا کی گئی قحط کی وجہ سے غزہ میں اموات کی کل تعداد 459 ہو گئی ہے، جن میں 154 بچے شامل ہیں۔
سیکڑوں فلوٹیلا کارکن اسرائیل کی تحویل میں موجود
جمعے کے روز گلوبل صمود فلوٹیلا کے 4 اطالوی کارکنوں کو جبراً اسرائیل لے جایا گیا اور بعد میں ملک بدر کر دیا گیا۔
اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ باقی تمام شرکا کو ان کے ممالک بھیجنے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
تقریباً 450 کارکن اسرائیلی حراست میں ہیں، جن میں سویڈش مہم جو گریٹا تھنبرگ اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی شامل ہیں۔
گلوبل صمود فلوٹیلا نے جمعے کو کہا تھا کہ اسرائیلی بحری افواج نے غیر قانونی طور پر ہمارے تمام 42 جہازوں کو روک لیا ہے۔
گروپ کے مطابق، یہ کشتیاں انسانی امداد، رضاکاروں اور اسرائیل کے غیر قانونی محاصرے کو توڑنے کے عزم کے ساتھ غزہ جا رہی تھیں، تاکہ مظلوم فلسطینیوں کو احساس دلایا جاسکے کہ عالمی دنیا ان مظالم کا درد رکھتی ہے، جن کا سامنا غزہ کے باشندے کر رہے ہیں۔
محمود عباس کی فوری جنگ بندی اور تعاون کی اپیل
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے گزشتہ رات حماس کی جزوی رضامندی کے بعد غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے صدر ٹرمپ کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
انہوں نے وفا نیوز ایجنسی کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ ہم ان بیانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، کیوں کہ یہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور اس نازک مرحلے میں تعمیری طرزِ عمل اپنانے کی آمادگی کا عندیہ دیتے ہیں، جو ہم سب سے اعلیٰ سطح کی قومی ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ صدر عباس نے فلسطین کی اس تیاری کی تصدیق کی کہ وہ اسی لمحے سے امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ تعمیری انداز میں کام کرے گا، اور تمام متعلقہ شراکت داروں یعنی نیویارک میں بین الاقوامی امن کانفرنس کے شریک صدور، ورکنگ گروپوں کے سربراہان، سلامتی کونسل کے عرب رکن الجزائر، سلامتی کونسل کے تمام اراکین اور جنرل اسمبلی کے اراکین کے ساتھ، تاکہ استحکام اور پائیدار و منصفانہ امن کو بین الاقوامی قانون کے مطابق یقینی بنایا جا سکے۔
عباس نے مزید کہا کہ اس وقت ہمارے لیے سب سے اہم بات مکمل اور فوری جنگ بندی پر عمل درآمد، تمام یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، اقوامِ متحدہ کی تنظیموں کے ذریعے انسانی امداد کی فوری فراہمی، نقل مکانی یا انضمام کی روک تھام، اور تعمیرِ نو کے عمل کا آغاز ہے۔
اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ کا حملے فوری روکنے پر زور
اسرائیلی قیدیوں کے اہلِ خانہ کے نمائندہ گروپ نے کہا ہے کہ جنگ کا فوری خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔
یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کے فورم نے ایک بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ کا جنگ کو فوراً روکنے کا مطالبہ قیدیوں کو سنگین اور ناقابلِ تلافی نقصان سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام قیدیوں کی واپسی کے لیے فوری اور مؤثر مذاکرات کا آغاز کریں۔
صہیونی فورسز کا رہائشیوں کو غزہ میں واپس نہ آنے کا انتباہ
اسرائیلی فوج نے غزہ کو ایک خطرناک جنگی علاقہ قرار دیتے ہوئےفلسطینیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ غزہ شہر واپس نہ جائیں۔
یہ دھمکی اس وقت سامنے آئی ہے جب صدر ٹرمپ نے اسرائیل سے کہا کہ وہ غزہ پر بمباری بند کرے، کیوں کہ حماس نے ٹرمپ کے غزہ پر اسرائیلی جنگ ختم کرنے کے لیے پیش کیے گئے 20 نکاتی منصوبے کو جزوی طور پر قبول کر لیا ہے۔
ایک اسرائیلی فوجی ترجمان نے ’ایکس‘ پر کہا کہ غزہ پٹی کے تمام رہائشیوں کے لیے فوری اعلان اور انتباہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ وادی غزہ کے شمال میں واقع علاقہ اب بھی ایک خطرناک جنگی زون ہے، اس علاقے میں رہنا بڑا خطرہ ہے، لہٰذا راشد اسٹریٹ آپ کے لیے جنوب کی طرف جانے کے لیے کھلی ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ اپنی سلامتی کے لیے، شمال کی طرف واپس جانے یا غزہ پٹی کے کسی بھی حصے حتیٰ کہ جنوبی حصے یا اُن علاقوں کے قریب جانے سے گریز کریں جہاں دفاعی فوج کے دستے کارروائیاں کر رہے ہیں