
اسرائیل نے فلسطینی ریاست کا تصور ’مٹانے‘ کیلئے غیرقانونی بستی کے قیام کی منظوری دیدی
اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے تصور کو ’مٹانے‘ کے لیے مغربی کنارے میں انتہائی متنازع اور غیر قانونی بستی کے قیام کے منصوبے کی حتمی منظوری دے دی۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹرج کے بیان کے مطابق صہیونی ریاست نے بدھ کے روز اس زمین پر جسے فلسطینی اپنی ریاست کی طور پر دیکھتے ہیں، متنازع بستیوں بنانے کے منصوبے کی حتمی منظوری دے دی۔
’ای ون‘ منصوبہ مقبوضہ مغربی کنارے کو دو حصوں میں تقسیم کردے گا اور اسے مشرقی بیت المقدس سے الگ کر دے گا جس کا اعلان گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر خزانہ نے کیا تھا اور بدھ کو وزارتِ دفاع کی منصوبہ بندی کمیشن نے اس کی باضابطہ توثیق کر دی۔
اسرائیل کے کچھ مغربی اتحادی پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کررہے ہیں۔
انتہا پسند اسرائیلی وزیر خزانہ سموٹرج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ’ ای ون کے ذریعے ہم بالآخر ان وعدوں کو پورا کر رہے ہیں جو برسوں پہلے کیے گئے تھے، فلسطینی ریاست کو نعروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ہٹایا جا رہا ہے‘۔
دوسری جانب، فلسطینی وزارتِ خارجہ نے بدھ کو اس اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ای۔ون بستی فلسطینی آبادیوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دے گی اور دو ریاستی حل کے امکان کو سبوتاژ کرے گی۔
جرمن حکومت کے ایک ترجمان نے اس موقع پر کہا کہ بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور ’ایک مذاکراتی دو ریاستی حل اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے میں رکاوٹ ڈالتی ہے‘۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ای۔ون منصوبے پر براہِ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
تاہم اتوار کو مغربی کنارے کی ایک اور بستی ’عفرہ‘ کے دورے کے دوران انہوں نے کہا کہ میں نے 25 سال پہلے کہا تھا کہ ہم ارضِ اسرائیل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے تاکہ فلسطینی ریاست کے قیام کو روکا جا سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہم اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ہمیں یہاں سے جڑ سے اکھاڑنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے، خدا کا شکر ہے، جو میں نے وعدہ کیا تھا، ہم نے پورا کیا۔
واضح رہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے لیے دو ریاستی حل کا تصور یہ ہے کہ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس، مغربی کنارہ اور غزہ پر مشتمل ایک فلسطینی ریاست وجود میں آئے، جو اسرائیل کے ساتھ ساتھ قائم ہو۔
مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس منصوبے کی مخالفت کرتی ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ مستقبل کے امن معاہدے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ای۔ون کا منصوبہ، جو معالے ادومیم کے قریب واقع ہے اور جسے 2012 اور 2020 میں امریکی اور یورپی اعتراضات پر روک دیا گیا تھا، منصوبے میں تقریباً 3400 نئے مکانات کی تعمیر شامل ہے۔
اسرائیلی گروپ ’پیس ناؤ‘ جو مغربی کنارے میں بستیوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہے، نے ایک بیان میں کہا ہے کہ منصوبے کا بنیادی ڈھانچہ چند ماہ میں شروع ہو سکتا ہے اور مکانوں کی تعمیر تقریباً ایک سال میں مکمل ہوگی۔
بین الاقوامی برادری کی اکثریت مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے۔
بین الاقوامی برادری کی اکثریت مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے