اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر جعلی ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق درخواست خارج کردی۔واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائے جانے کے تقریباً ایک سال بعد مریم نواز کو ان جائیدادوں کی ‘جعلی’ ٹرسٹ ڈیڈ پیش کرنے پر 19 جولائی کو طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔جس پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اسلام آباد کی احتساب عدالت پہنچی تھیں۔عدالت پہنچنے کے لیے مریم نواز جاتی امرا سے روانہ ہوئیں تھیں، جہاں ان کے ہمراہ لیگی کارکنان بھی موجود تھے جبکہ احتساب عدالت کے باہر بھی مسلم لیگ کے کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی اور اس دوران پولیس اور کارکنان میں تصادم ہوا، جس پر متعدد لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ادھر کارکنان کی گرفتاری پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’انہیں شرم آنی چاہیے، 126 دن اسلام آباد بند کرنے والوں کو یہ برداشت نہیں ہورہا، مریم نواز پہنچی نہیں اس کا خوف پہلے پہنچ گیا، اگر اتنا ہی ڈر تھا تو کیوں سلیکٹڈ ہوئے‘۔عدالت میں آج ہونے والی سماعت کے پیش نظر خصوصی سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے اور پولیس اور رینجرز کی بڑی تعداد عدالت کے اطراف موجود رہی۔خیال رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے گزشتہ سال 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں بالترتیب 10 سال اور 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔اپنے فیصلے میں جج محمد بشیر نے قرار دیا تھا کہ ‘ایون فیلڈ جائیدادوں سے متعلق ملزمہ مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ بھی جعلی ثابت ہوئی جبکہ اس جعلی ڈیڈ کے حوالے سے ان کے کردار پر انہیں مجرم قرار دیا جاتا ہے اور 7 سال قید بامشقت اور 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔’بعد ازاں اس سزا کے خلاف مریم نواز نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کی سزا معطل کردی تھی۔جس کے بعد نیب نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا، جہاں یہ اپیلیں مسترد ہوگئیں تھیں۔تاہم نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر خان عباسی نے 9 جولائی 2019 کو احتساب عدالت میں درخواست جمع کرائی جس میں مریم نواز کے خلاف عدالت میں لندن جائیدادوں کی جعلی ٹرسٹ ڈیڈ پیش کرنے پر کارروائی کی استدعا کی گئی۔نیب کی درخواست میں کہا گیا کہ ‘معزز عدالت تمام شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی، اس لیے یہ ظاہر ہے کہ جواب دہندہ نے بدنیتی سے من گھڑت اور جھوٹا ثبوت / معلومات جمع کرائی جس کا مقصد عدالت کو گمراہ کرنا اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ حائل کرنا تھا۔’جج محمد بشیر نے پراسیکیوٹر سے معلوم کیا کہ کن بنیادوں پر عدالت معاملے کر آگے بڑھا سکتی ہے، جس پر سردار مظفر خان عباسی نے کہا کہ جج کو اختیار ہے کہ وہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 30 کے تحت مریم نواز کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتے ہیں، جسے آرڈیننس کے شیڈول کے سیریل نمبر 3 کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔








































