آزاد کشمیر: بچی کی جان لینے والے تیندوے کا مسلسل دوسرے روز حملہ، طالبعلم بال بال بچ گیا
آزاد جموں و کشمیر کے ضلع جہلم ویلی کی سرحدی بستی نالہ دبرن میں اتوار کو ایک نوعمر لڑکا تیندوے کے حملے میں معجزاتی طور پر بال بال بچ گیا، یہ واقعہ ایک روز قبل اُسی تیندوے کے حملے میں جاں بحق ہونے والی 8 سالہ بچی کی تدفین کے چند گھنٹے بعد پیش آیا۔
متاثرہ لڑکے کی شناخت مدثر علی اعوان کے نام سے ہوئی ہے جو دسویں جماعت کا طالبعلم ہے، وہ 8 سالہ بچی کے جنازے میں شرکت کے بعد گھر واپس جا رہا تھا جب اچانک تیندوے نے اُس پر حملہ کر دیا، مدثر نے چیخ و پکار کی اور خود کو بچانے کی پوری کوشش کی، اس کی آوازیں سن کر قریبی دیہاتی موقع پر پہنچے اور ڈنڈوں اور پتھروں سے تیندوے پر حملہ کر کے اُسے جنگل کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
مدثر علی کو معمولی چوٹیں اور خراشیں آئیں جبکہ اُس کے کپڑے پھٹ گئے، واقعے نے پورے پہاڑی علاقے میں خوف اور بے چینی کی فضا پیدا کر دی ہے۔
موقع پر موجود نالہ دبرن کے رہائشی نذیر اعوان نے بتایا کہ ’طالبعلم کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں، اگر دیہاتی قریب نہ ہوتے تو انجام انتہائی افسوسناک ہو سکتا تھا‘۔
اس سے ایک روز قبل یہی تیندوا ایک آٹھ سالہ بچی کو اُس کے گھر کے صحن سے اُٹھا کر قریبی جنگل میں لے گیا تھا، جہاں سے کئی گھنٹوں بعد اُس کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔
اس واقعے کے بعد علاقے میں شدید خوف و ہراس اور غم و غصہ پایا جاتا ہے، مقامی افراد نے انتظامیہ اور محکمہ وائلڈ لائف پر سنگین غفلت کا الزام عائد کیا ہے۔
نذیر اعوان نے کہا کہ ’ایک بچی کی جان جانے کے بعد بھی حکام نے کوئی اقدام نہیں کیا، ہم اب مسلسل خوف میں زندگی گزار رہے ہیں، حکومت کو فوری طور پر اس تیندوے کو پکڑ کر یا تو قید کرنا ہوگا یا کسی اور جگہ منتقل کرنا ہوگا‘۔
24 جولائی کو مقامی صحافیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے تیندوے کی انسانی آبادیوں میں بڑھتی موجودگی پر توجہ دلائی تھی اور فوری کارروائی کی اپیل کی تھی، مگر کوئی عملی اقدام نہ ہو سکا۔
آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجا فاروق حیدر نے بھی واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کیا، اُن کا کہنا تھا کہ ’واقعہ نہایت تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے، جنگلی حیات کا تحفظ اہم ہے، مگر انسانی جانوں کی قیمت پر نہیں‘۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ انسانی آبادیوں میں موجود تیندوؤں کو یا تو منتقل کیا جائے یا برآمد کیا جائے، اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر لوگ اپنی جان بچانے کے لیے ان جانوروں کو ماریں تو انہیں موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘۔
راجا فاروق حیدر نے متاثرہ خاندان سے اظہارِ تعزیت کیا اور حکومت سے معاوضہ فراہم کرنے کی اپیل کی، انہوں نے زور دیا کہ اس علاقے سمیت دیگر حساس علاقوں میں فوری حفاظتی اقدامات کیے جائیں تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جاسکے۔
محکمہ وائلڈ لائف سے رابطے کی متعدد کوششیں کی گئیں، تاہم کوئی جواب نہ مل سکا








































